(۱) سنن النسائی‘ کتاب الجہاد‘ باب الرخصۃ فی التخلف لمن لہ والدۃ. وسنن ابن ماجہ‘ کتاب الجہاد‘ باب الرجل یغزو ولہ ابوان.
وَ اِنۡ جَاہَدٰکَ عَلٰۤی اَنۡ تُشۡرِکَ بِیۡ مَا لَیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ ۙ فَلَا تُطِعۡہُمَا
’’اور اگر وہ تجھ سے جھگڑیں اس بات پر کہ تو میرے ساتھ شریک ٹھہرائے جس کے لیے تیرے پاس کوئی علم نہیں تو اُن کا کہنا مت مان‘‘.
البتہ یہ نہیں فرمایا کہ اس طرح ان کے سارے حقوق ساقط ہو گئے. ایسا معاملہ نہیں ہے. شرک پر مجبور کرنے کے ضمن میں تو اُن کی حکم عدولی کی جائے گی‘ لیکن ان کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم باقی اور برقرار رہے گا.چنانچہ فرمایا:
وَ صَاحِبۡہُمَا فِی الدُّنۡیَا مَعۡرُوۡفًا ۫
’’اور دنیا میں ان کے ساتھ رہ معروف طور پر (یعنی بھلے طریقے سے)‘‘.
لیکن اس کے ساتھ ہی بارِ دگر تنبیہ کر دی گئی کہ حسنِ سلوک میں اتباع یعنی پیروی شامل نہیں ہے. پیروی صرف اُس شخص کی کی جائے گی جس نے اپنا رُخ اللہ کی طرف کر لیا ہو! چنانچہ فوراً ہی ارشاد ہوا:
وَّ اتَّبِعۡ سَبِیۡلَ مَنۡ اَنَابَ اِلَیَّ ۚ
’’اور اتباع کرنا اُس کی جس نے اپنا رُخ میری طرف کر رکھا ہو‘‘.
مشرک والدین کا اتباع یا اُن کے نقشِ قدم کی پیروی نہ عقلاً لازم ہے نہ نقلاً واجب!
(۲) صحیح البخاری‘ کتاب الآداب‘ باب من احق الناس بحسن الصحبۃ. وصحیح مسلم‘ کتاب البر والصلۃ والآداب‘ باب بر الوالدین وانھما احق بہ.
اب ان سعادت مند ‘ سلیم الفطرت اور صحیح العقل نوجوانوں کے سامنے یہ عملی سوال آیا کہ اب کیا کریں؟ ظاہر بات ہے کہ سعادت مند اولاد کو فطری طور پر ماں باپ کے حقوق کا شعور ہوتا ہے. اس اعتبار سے ان کے لیے ایک عملی پیچیدگی پیدا ہو گئی. قرآن مجید نے اسی سیاق و سباق میں آگے اس کا حل پیش کر دیا:
وَ اِنۡ جَاہَدٰکَ عَلٰۤی اَنۡ تُشۡرِکَ بِیۡ مَا لَیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ ۙ فَلَا تُطِعۡہُمَا
’’اور اگر وہ تجھ سے جھگڑیں اس بات پر کہ تو میرے ساتھ شریک ٹھہرائے جس کے لیے تیرے پاس کوئی علم نہیں تو اُن کا کہنا مت مان‘‘.
البتہ یہ نہیں فرمایا کہ اس طرح ان کے سارے حقوق ساقط ہو گئے. ایسا معاملہ نہیں ہے. شرک پر مجبور کرنے کے ضمن میں تو اُن کی حکم عدولی کی جائے گی‘ لیکن ان کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم باقی اور برقرار رہے گا.چنانچہ فرمایا:
وَ صَاحِبۡہُمَا فِی الدُّنۡیَا مَعۡرُوۡفًا ۫
’’اور دنیا میں ان کے ساتھ رہ معروف طور پر (یعنی بھلے طریقے سے)‘‘.
لیکن اس کے ساتھ ہی بارِ دگر تنبیہ کر دی گئی کہ حسنِ سلوک میں اتباع یعنی پیروی شامل نہیں ہے. پیروی صرف اُس شخص کی کی جائے گی جس نے اپنا رُخ اللہ کی طرف کر لیا ہو! چنانچہ فوراً ہی ارشاد ہوا:
وَّ اتَّبِعۡ سَبِیۡلَ مَنۡ اَنَابَ اِلَیَّ ۚ
’’اور اتباع کرنا اُس کی جس نے اپنا رُخ میری طرف کر رکھا ہو‘‘.
مشرک والدین کا اتباع یا اُن کے نقشِ قدم کی پیروی نہ عقلاً لازم ہے نہ نقلاً واجب!