یہاں ایک نکتہ قابل توجہ ہے اور وہ یہ کہ حضرت لقمان نے وصیت کرتے ہوئے بیٹے کو اللہ کا حق تو بتا دیا کہ ’’اے میرے بچے! اللہ کے ساتھ شرک مت کرنا‘‘ لیکن خود اپنے حقوق کو بیان کرنا انہیں زیب نہ دیتا تھا. لہذا اس مضمون کی تکمیل اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے فرما دی اور حضرت لقمان کی نصیحتوں کے سلسلے میں ایک بات اپنی طرف سے داخل فرما دی جو والدین کے حقوق سے متعلق ہے. البتہ اس کے نتیجے میں ایک سوال خود بخود پیدا ہو گیا‘ یعنی یہ کہ اگر دونوں حقوق ایک دوسرے کے مقابل آ جائیں‘ اور باہم ٹکرا جائیں ‘یعنی ایک اللہ کا حق‘ دوسرے مخلوقات میں سے سب سے فائق والدین کاحق‘ اور خود والدین اپنی اولاد کو شرک پر مجبور کریں تو اس صورت میں اولاد کیا کرے؟ یہ ایک بالکل عملی مسئلہ ہے. نبی اکرم پر جو لوگ ابتدا ہی میں ایمان لائے اُن میں متعدد نوجوان بھی تھے. ان میں سے دو نوجوانوں حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہما کا ذکر بہت مناسب ہے. ان کے لیے سب سے بڑا عملی مسئلہ یہ کھڑا ہو گیاکہ اُن دونوں کی مائیں مشرک تھیں. وہ انہیں اپنے حقوق کا واسطہ دے کر مجبور کر رہی تھیں کہ اپنے آبائی دین کو ترک نہ کرو‘ اس میں واپس آجاؤ. ان نوجوانوں کی ماؤں نے بھوک ہڑتال اور مرن برت تک کی دھمکیاں دیں.

(۱) سنن النسائی‘ کتاب الجہاد‘ باب الرخصۃ فی التخلف لمن لہ والدۃ. وسنن ابن ماجہ‘ کتاب الجہاد‘ باب الرجل یغزو ولہ ابوان.
(۲) صحیح البخاری‘ کتاب الآداب‘ باب من احق الناس بحسن الصحبۃ. وصحیح مسلم‘ کتاب البر والصلۃ والآداب‘ باب بر الوالدین وانھما احق بہ.

اب ان سعادت مند ‘ سلیم الفطرت اور صحیح العقل نوجوانوں کے سامنے یہ عملی سوال آیا کہ اب کیا کریں؟ ظاہر بات ہے کہ سعادت مند اولاد کو فطری طور پر ماں باپ کے حقوق کا شعور ہوتا ہے. اس اعتبار سے ان کے لیے ایک عملی پیچیدگی پیدا ہو گئی. قرآن مجید نے اسی سیاق و سباق میں آگے اس کا حل پیش کر دیا: 

وَ اِنۡ جَاہَدٰکَ عَلٰۤی اَنۡ تُشۡرِکَ بِیۡ مَا لَیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ ۙ فَلَا تُطِعۡہُمَا 
’’اور اگر وہ تجھ سے جھگڑیں اس بات پر کہ تو میرے ساتھ شریک ٹھہرائے جس کے لیے تیرے پاس کوئی علم نہیں تو اُن کا کہنا مت مان‘‘.

البتہ یہ نہیں فرمایا کہ اس طرح ان کے سارے حقوق ساقط ہو گئے. ایسا معاملہ نہیں ہے. شرک پر مجبور کرنے کے ضمن میں تو اُن کی حکم عدولی کی جائے گی‘ لیکن ان کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم باقی اور برقرار رہے گا.چنانچہ فرمایا: 

وَ صَاحِبۡہُمَا فِی الدُّنۡیَا مَعۡرُوۡفًا ۫ 
’’اور دنیا میں ان کے ساتھ رہ معروف طور پر (یعنی بھلے طریقے سے)‘‘.

لیکن اس کے ساتھ ہی بارِ دگر تنبیہ کر دی گئی کہ حسنِ سلوک میں اتباع یعنی پیروی شامل نہیں ہے. پیروی صرف اُس شخص کی کی جائے گی جس نے اپنا رُخ اللہ کی طرف کر لیا ہو! چنانچہ فوراً ہی ارشاد ہوا:

وَّ اتَّبِعۡ سَبِیۡلَ مَنۡ اَنَابَ اِلَیَّ ۚ 
’’اور اتباع کرنا اُس کی جس نے اپنا رُخ میری طرف کر رکھا ہو‘‘.

مشرک والدین کا اتباع یا اُن کے نقشِ قدم کی پیروی نہ عقلاً لازم ہے نہ نقلاً واجب!