الحمد للہ کہ ہم نے اب تک اس رکوع کے نصف اوّل یعنی چار آیات کا طائرانہ جائزہ لے لیا ہے. آگے بڑھنے سے پہلے آیئے کہ ان کے مضامین پر نگاہِ بازگشت ڈال لیں. اس کی پہلی آیت میں حضرت لقمان کا تعارفی ذکر ہے. دوسری آیت میں ان کی نصائح کا آغاز ہواجن میں سے اوّلین اور اہم ترین نصیحت اجتناب عن الشرک کی پُرزور تاکید پر مشتمل تھی.بعد کی دو آیات میں اللہ تعالیٰ نے اس وصیت کا اپنی جانب سے ذکر فرما دیا جو جبلی طور پر بھی انسان کی طبیعت میں ودیعت کی گئی ہے اور اس کی توثیق الہام اور وحی کے ذریعے بھی ہوئی ہے. پھر اگر حقوق اللہ اور حقوق الوالدین میں ٹکراؤ ہو تو ایک موحّد کو کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے ‘اس کی ہدایت کر دی گئی. اس کے بعد پھرسے حضرت لقمان کی نصائح کا ذکر شروع ہوا جس میں دوسری نصیحت مکافاتِ عمل یعنی معاد سے متعلق ہے‘ اس کے بعد رکوع کے اختتام تک حضرت لقمان کی چند عملی نصیحتوں کا ذکر چلتا ہے.
البتہ سورۃ العصر اور آیۃ البِرّ کے مضامین کے ساتھ تقابل اور موازنہ کے حوالے سے بہتر ہو گا کہ مضمون مکمل ہو جائے اور چند اشارات کر دیے جائیں. آپ نے جان لیا کہ سورۃ العصر میں ایمان کی جامع اصطلاح اور آیۃ البِر میں ایمانیات کی قدرے تفصیل مذکور تھی. اس کے مقابلے میں یہاں ایمان باللہ کا ذکر اللہ کے شکر اور اجتناب عن الشرک کی تاکید کی شکل میں آ گیا اور ایمان بالآخرۃ کا ذکر مکافاتِ عمل کے حوالے سے ہو گیا. پھر عملِ صالح کے ضمن میں بھی سورۃ العصر میں صرف ایک جامع عنوان وارد ہوا تھا جبکہ آیۂ بِر میں عملِ صالح کے تین اہم گوشوں کی تفصیل مذکور تھی. بعینہٖ یہی معاملہ یہاں بھی ہے‘ حتیٰ کہ جیسے آیۂ بر میں انسانی ہمدردی کا ذکر مقدم تھا اقامتِ صلوٰۃ پر‘ یہاں بھی والدین کے حقوق کا ذکر پہلے آیا ہے اور صلوٰۃ کا ذکر بعد میں. اس کے بعد یہاں آپ مزید اعمالِ صالحہ شمار کریں گے تو آخری دو آیات میں تواضع‘ انکساری اور فروتنی کا معاملہ آئے گا. ’’صعر‘‘ اونٹ کی گردن کی ایک بیماری کو کہا جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کی گردن ٹیڑھی ہو جاتی ہے. انسانوں میں جب تمکنت پیدا ہوجاتی ہے تو غرور کی وجہ سے چال میں اکڑ‘ اندازِ گفتگو میں بے اعتنائی اور کج ادائی آ جاتی ہے. حضرت لقمان کی نصائح کے ذریعے سے ان چیزوں سے روکا گیا‘ اس حوالے سے کہ اللہ تعالیٰ مغرور اور اترانے والے لوگوں کو بالکل پسند نہیں کرتا. مزید برآں عملی زندگی میں ہر اعتبار سے اعتدال اور توازن کی تاکید کی گئی.
سورۃالعصر میں تیسری چیز تھی تواصی بالحق. یہاں اس کے ضمن میں ایک معین اصطلاح آ گئی ہے‘ یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر‘ چنانچہ اقامتِ صلوٰۃ کے تاکیدی حکم کے معاً بعد ارشاد ہوتا ہے:
وَ اۡمُرۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ انۡہَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ
’’اورنیکی کا حکم دو اور بدی سے روکو‘‘.
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہمارے دین کی بڑی اہم اصطلاحات ہیں‘ اتنی اہم کہ اُمّتِ مسلمہ کا مقصدِ تأسیس ہی اللہ تعالیٰ نے سورۃ آل عمران میں انہی اصطلاحات کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ:
کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ تَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ ؕ (آیت ۱۱۰) ’’(اے مسلمانو!) تم وہ بہترین اُمت ہو جسے دنیا والوں کے لیے برپا کیا گیاہے. تمہاری ذمہ داری ہے کہ نیکی کا حکم دو‘ بدی سے روکو اور اللہ پر پختہ ایمان رکھو‘‘.
سورۃ العصر میں آخری چیز تھی تواصی بالصبر. یہاں حضرت لقمان کی نصیحتوں میں اس کا بیان آگیا. آنجناب اپنے بیٹے سے کہتے ہیں کہ:
وَ اصۡبِرۡ عَلٰی مَاۤ اَصَابَکَ ؕ اِنَّ ذٰلِکَ مِنۡ عَزۡمِ الۡاُمُوۡرِ ﴿ۚ۱۷﴾
’’اور صبر کر اُن مصائب پر جو (بالخصوص امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے پر) تجھے درپیش ہوں. یقینا یہ (امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کی ادائیگی) بڑے ہمت اور حوصلے کے کاموں میں سے ہے.‘‘
نیکی کا حکم‘ نیکی کی تلقین اور بدی سے روکنا‘ اس پر نکیر‘ اس کو عام طور پر ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کیا جاتا. لہذا تمسخر و استہزاء‘ تضحیک و توہین‘ مصائب و شدائد اور ابتلاء و امتحان اس راہ کے لوازم میں سے ہیں‘ ان کو جھیلنا اور برداشت کرنا ہو گا.
یہ ہے اس رکوع کے مضامین کا خلاصہ جو بادنیٰ تأمل ہمارے سامنے آ گیا. دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی حکمت و دانائی کا وافر حصہ عطا فرمائے اور یہ حکمت و دانائی محض ذہن وفکر کی حد تک محدود نہ رہے بلکہ ہماری سیرت و کردار اور اخلاق و معاملات میں رچ بس جائے اور ہماری شخصیت کا ایک جزوِ لاینفک بن جائے.آمین یاربّ العالمین!