قارئین کرام کو یاد ہو گا کہ سلسلۂ درس کے بالکل آغاز میں یہ عرض کیا گیا تھا کہ فہمِ قرآن کے دو درجے ہیں. ایک تذکر بالقرآن‘ یعنی آیات اور سورتوں کے مطالعے سے ان کا اصل سبق اور اُن کا لبِّ لباب حاصل کر لیا جائے‘ گویا بنیادی ہدایت اخذ کر لی جائے‘ دوسرا تدبر قرآن‘ یعنی قرآن مجید کی آیات اور سورتوں کی گہرائیوں میں غوطہ زنی کی جائے‘ ایک ایک لفظ پر تدبر و تفکر کا حق ادا کیا جائے‘ آیات کے باہمی ربط اور سورتوں کے داخلی اور خارجی نظم کا فہم حاصل کرنے کی کوشش کی جائے. ہم نے سورۂ لقمان کے دوسرے رکوع پر بطریق تذکر اختصار کے مدنظر جس حد تک ممکن ہو سکا وہ اساسی رہنمائی اخذ کر لی ہے جو اِس رکوع کے اصل سبق سے متعلق ہے. اب ہمیں اس رکوع پر بطریقِ تدبّر غور کرنا ہے. یہ رکوع اس اعتبار سے بہت اہم ہے کہ اس میں حکمتِ قرآنی کی اساسات متعین ہوتی ہیں. ’’حکمت‘‘ کا لفظ اردو میں مستعمل ہے اور بالعموم اس کو ہم فلسفہ کے ساتھ جوڑ کر استعمال کرتے ہیں‘ یعنی فلسفہ و حکمت‘ لیکن یہ بات سمجھنا بہت ضروری ہے کہ فلسفہ اور حکمت میں ایک بڑا بنیادی فرق ہے. فلسفے کا دار و مدار خالصتاً عقل پر ہے. چنانچہ فلسفہ منطق کے اصولوں پر آگے بڑھتا ہے ‘جبکہ حکمت کی اصل اساس بدیہیاتِ فطرت پر ہے اور اس عمارت کی تعمیر فطرت کے مسلّمات کی بنیاد پر ہوتی ہے‘ اگرچہ عقلِ سلیم اسے ایک ہنرمند معمار کی طرح اُوپر اٹھاتی ہے‘ بالکل ایسے جیسے قرآن حکیم میں کلمۂ طیبہ اور عملِ صالح کے باہمی ربط و تعلق کو واضح کیا گیا کہ: 

اِلَیۡہِ یَصۡعَدُ الۡکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الۡعَمَلُ الصَّالِحُ یَرۡفَعُہٗ ؕ (فاطر:۱۰
’’اسی کی جانب بلند ہوتے ہیں کلماتِ طیبات اور عمل صالح انہیں اُوپر اٹھاتا ہے.‘‘

واضح رہے کہ ہماری فطرت میں کچھ حقائق مضمر ہیں جنہیں ہم اپنے شعور کی تحتانی سطح پرمحسوس کرتے ہیں ‘اور چاہے ہم ان کے لیے کوئی دلیل نہ دے سکیں لیکن فطرت کے ان مضمر حقائق کا ہم نہ انکار کر سکتے ہیں نہ ابطال. ان بدیہیاتِ فطرت کو بنیاد بنا کر جب تعقل و تفکر کا عمل آگے بڑھے تو اس طرح جو دولتِ عظمیٰ حاصل ہو گی وہ ’’حکمت‘‘ ہے. ذرا اِس لفظ ’’حکمت‘‘ کو بھی اچھی طرح سمجھ لیجیے. عربی زبان میں ’’ح ک م‘‘ کے مادے سے جو الفاظ بنتے ہیں ان سب میں آپ کو کسی شے کی پختگی اور مضبوطی کا مفہوم مشترک ملے گا. چنانچہ اسی سے لفظ استحکام بنا ہے جسے عام طور پر ہمارے یہاں استعمال کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ فلاں چیز مستحکم ہے ‘یعنی بہت پختہ اور مضبوط ہے. ’’حکمت‘‘ اصل میں انسان کی عقل و شعور کی وہ پختگی ہے کہ جس سے اس میں اصابتِ رائے پیدا ہو جائے‘ اس میں صحیح نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے‘ اس میں صحیح و غلط میں فرق و امتیاز کرنے کی اہلیت پیدا ہو جائے اور اسے صحیح حقائق تک رسائی حاصل ہو جائے. ان تمام اوصاف کو جمع کریں تو انسان میں جو قابلیت اور صلاحیت پیدا ہو گی وہ ’’حکمت‘‘ ہے. قرآن مجید میں سورۃ البقرۃ کی آیت ۲۶۹ میں ’’حکمت‘‘ کواللہ تعالیٰ نے اپنا ایک بہت بڑا انعام و احسان اور بہت بڑا فضل قرار دیا ہے. چنانچہ ارشاد ہوا: 

یُّؤۡتِی الۡحِکۡمَۃَ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ
’’اللہ تعالیٰ حکمت عطا فرماتا ہے جس کو چاہتا ہے.‘‘

اور: 

وَ مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃَ فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا ؕ 
’’اورجسے حکمت عطا ہو گئی اسے تو خیرِ کثیر عطا ہو گیا.‘‘

گویا اسے نہایت قیمتی اور کمیاب شے مل گئی. چنانچہ ہمارے دین کی ایک اعلیٰ قدر حکمت ہے. یعنی عقل و شعور کی پختگی‘ دانائی‘ حقائق رسی کی صلاحیت‘ اصابتِ رائے‘ نیکی اور بدی میں تمیز کرنے کی اہلیت اور خیر وشر میں فرق کرنے کی قابلیت. جس کو اللہ تعالیٰ یہ سب کچھ عطا فرما دے اس پر اللہ تعالیٰ کے انعام‘ احسان اور فضل کا کیا کہنا !اس موقع پر مناسب ہے کہ حکمت کے ضمن میں نبی اکرم کی ایک حدیث بھی بیان کر دی جائے. آنحضور فرماتے ہیں: 

کَلِمَۃُ الْحِکْمَۃِ ضَالَّۃُ الْمُؤْمِنِ ‘ فَحَیْثُ وَجَدَھَا فَھُوَ اَحَقُّ بِھَا (۱
’’حکیمانہ بات مؤمن کی گمشدہ متاع کے مانند ہے‘ وہ اس کا سب سے زیادہ حق دار ہے جہاں کہیں بھی اسے پائے.‘‘

یعنی جیسے ہماری کوئی چیز کہیں کھو گئی ہو اور پھر وہ ہمیں کہیں نظر آئے تو ہم اس کی طرف لپکتے ہیں کہ یہ میری چیز ہے. اس فعل میں ہمیں کوئی رکاوٹ اور کوئی جھجک نہیں ہوتی. بالکل اسی نوعیت کا معاملہ مؤمن کا ہے کہ حکمت و دانائی اسے جہاں بھی نظر آئے گی وہ اسے لپک کر قبول کر لے گا‘ بالکل اسی طرح جس طرح کوئی شخص اپنی کسی گم شدہ چیز کو حاصل کرنے کے لیے لپکتا ہے. بلکہ حضور کا ارشاد تو یہ ہے کہ مؤمن حکمت کا سب سے زیادہ مستحق ہے.