حکمت ِقرآنی کی اساسات کے ضمن میں چند امور کی وضاحت ضروری ہے.
۱) انسان پر اللہ تعالیٰ کا شکر تو فرض کے درجے میں ہے. جو شخص اللہ کے شکر کی روش اختیار کرے گااس کی فطرت میں دوسرے محسنین کے شکر کی عادت اور خُو بھی یقینا پیدا ہو گی. چنانچہ نبی اکرمﷺ کا ارشاد گرامی ہے : مَنْ لَّمْ یَشْکُرِ النَّاسَ لَمْ یَشْکُرِ اللّٰہَ (۱) ’’جو شخص انسانوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کرے گا‘‘. اس لیے کہ جس کنویں کا پانی خشک ہو چکا ہو اُس میں ڈول کوئی بھی ڈالے پانی نہیں نکلے گا. جس کی فطرت کے سوتے خشک ہو چکے ہوں اس میں سے شکر کا جذبہ نہ انسانوں کے لیے برآمد ہو گا نہ اللہ کے لیے. (۱) سنن الترمذی‘ کتاب البر والصلۃ‘ باب ما جاء فی الشکر لمن احسن الیک. ومسند احمد‘ کتاب باقی مسند المکثرین‘ باب مسند ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ.
۲) اگر انسان کی فطرت میں شکر کا مادہ ہے اور احسان مندی کا جذبہ ہے تو اس کی اپنی شخصیت کا ارتقاء صحیح رُخ پر ہو گا. معاذ اللہ‘ اللہ کو شکر کی احتیاج نہیں ہے‘ کوئی اس کی حمد و ثنا کرے نہ کرے وہ تو اپنی ذات میں غنی ہے‘ حمید ہے‘ از خود محمود ہے‘ ستودہ صفات ہے‘ اس کو شکر کی حاجت نہیں ہے. شکر کی ضرورت خود انسان کو ہے. یہ جذبہ اس کے اندر اگر موجود ہے تو اس کی شخصیت کا صحیح سمت میں ارتقاء ہو گا اور اس کی خودی اور سیرت کی تعمیر صحیح اساسات پر ہو گی.
۳)امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ضمن میں انسان کو اپنی ذات اور اپنے نفس کو مقدم رکھنا ضروری ہے. ایسا نہ ہو کہ ہم دوسروں کو تو نیکی کی نصیحت و تلقین کریں اور خود اُس پر عامل نہ ہوں. برائی پر ہم دوسروں کی نکیر کریں‘ ان پر تنقید کریں اور اپنی برائیوں پر نہ نظر ڈالیں نہ ان کو دور کرنے کی فکر کریں. سورۃ البقرۃ میں بنی اسرائیل کے جرائم کیجو فہرست بیان ہوئی ہے اس میں ایک جرم یہ بھی فرمایا گیا:
اَتَاۡمُرُوۡنَ النَّاسَ بِالۡبِرِّ وَ تَنۡسَوۡنَ اَنۡفُسَکُمۡ (البقرۃ:۴۴)
’’کیا تم لوگوں کو نیکی اور بھلائی کا حکم دیتے ہو (اور انہیں اس کی تلقین و نصیحت کرتے ہو ) اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو!‘‘
تو انسان میں یہ دونوں وصف بیک وقت مطلوب ہیں. وہ اپنی اصلاح کے لیے بھی کوشاں رہے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتا رہے. یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کے لیے ممدومعاون ہوں گی.
۴) ایک بات یہ بھی سمجھ لیجیے کہ عربی زبان میں ’’امر‘‘ جہاں حکم کے معنی میں آتا ہے وہاں تلقین‘ نصیحت اور مشورے کے لیے بھی آتا ہے. اس کے معانی کلام کے سیاق و سباق کے اعتبار سے متعین ہوتے ہیں.
۵) آخری بات یہ کہ احادیثِ نبویہ میں سارا زور نہی عن المنکر پر ملتا ہے. اس کی حکمت بھی بادنیٰ تأمل سمجھ میں آتی ہے. جس معاشرے میں برائیوں کو گوارا کیا جائے‘ ان سے صرفِ نظر اور اعراض کیا جائے‘ ان کو روکنے اور مٹانے سے غفلت اختیار کی جائے تو معاشرے میں نیکیوں کے فروغ اور نشوونما کے لیے ماحول قطعی ناسازگار ہو جائے گا. اس کی مثال یہ ہے کہ کسی پھل پھول والے پودے کے ساتھ جو جھاڑ جھنکاڑ اُگ آتا ہے اگر باغبان اس کی صفائی نہ کرے تو زمین اور فضا سے ملنے والی غذائیں اس پودے کے بجائے یہ جھاڑ جھنکاڑ ہڑپ کر جائیں گے اور پودے کو پنپنے اور نشوونما کے لیے غذا مہیا ہی نہیں ہو سکے گی.
۶) معاشرے سے برائیوں کو دور کرنے کے حدیث میں تین درجے بیان ہوئے ہیں. مسلم شریف کی حدیث ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا :
مَنْ رَآی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ ‘ فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ ‘ فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ
یعنی تم میں سے جو کوئی بھی کسی برائی کو دیکھے تو پہلا درجہ عزیمت کا ہے کہ طاقت سے برائی کو روک دے. اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو زبان سے تلقین کی جائے‘ نصیحت کی جائے کہ کیا کر رہے ہو‘ باز آ جاؤ. ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ حالات اتنے بگڑ جائیں کہ زبانوں پر تالے ڈال دیے جائیں‘ زبان بندی ہو جائے‘ تو دل میں یہ احساس ضرور رہے‘ صدمہ ضرور رہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے!ایک شدید کرب کا احساس باقی رہے. یہ آخری درجہ ہے. حضورﷺ نے فرمایا: وَذٰلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ (۱) ’’اوریہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے‘‘. اگر برائیوں پر دل کی کڑھن بھی موجود نہ رہے تو معلوم ہوا کہ ایمان کی رمق بھی اندر باقی نہیں رہی ہے. یہ وہ درجہ ہے جس کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا کہ : ؎
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا!
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
(۱) صحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب بیان کون النھی عن المنکر من الایمان … عن ابی سعید الخدری رضی اللّٰہ عنہ.