سورۂ لقمان کے دوسرے رکوع میں حکمتِ قرآنی کی جو اساسات بیان ہوئی ہیں اور جس مقامِ عزیمت کی طرف رہنمائی فرمائی گئی ہے اس کے حوالے سے اختصار و اجمال کے ساتھ رکوع کا لبِّ لباب اور اس کا اصل حاصل بیان ہو گیا‘ فللّٰہ الحمد. اب اس رکوع کی آیت ۲ پر مزید غور کرنا مقصود ہے‘ کیونکہ اس میں اجتناب عن الشرک کی تاکید کے ضمن میں التزامِ توحیدِ باری تعالیٰ کا انتہائی تاکیدی حکم وارد ہوا ہے‘ اور ہر شخص جانتا ہے کہ ہمارے دین کی اصل جڑ بنیاد توحید ہی ہے. چنانچہ حضرت لقمان کی نصائح کے ضمن میں پہلی نصیحت بایں الفاظ بیان فرمائی گئی:
یٰبُنَیَّ لَا تُشۡرِکۡ بِاللّٰہِ ؕؔ اِنَّ الشِّرۡکَ لَظُلۡمٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱۳﴾
’’اے میرے پیارے بچے! اللہ کے ساتھ شرک مت کر‘ یقینا شرک بہت بڑا ظلم ہے‘‘.
اس سلسلے میں پہلی اور اہم ترین بات تو یہ جان لینی چاہیے کہ ازروئے قرآن مجید ہمارے دین میں شرک سب سے بڑا گناہ اور ناقابل معافی جرم ہے. سورۃ النساء میں دو مرتبہ اس بات کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے. چنانچہ آیت ۴۸ کے الفاظ ہیں:
اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَقَدِ افۡتَرٰۤی اِثۡمًا عَظِیۡمًا ﴿۴۸﴾
’’اللہ تعالیٰ اس کو تو ہرگز معاف نہیں فرمائے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے‘ البتہ اس سے کمتر خطائیں اور تقصیریں جس کے لیے چاہے گا بخش دے گا. اور جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا‘ اس نے تو بہت ہی بڑا جھوٹ گھڑا (اور بہت بڑے گناہ کا ارتکاب کیا).‘‘
اسی سورۃ کی آیت ۱۱۶ میں یہ مضمون دوبارہ اس شان کے ساتھ وارد ہوا کہ آیت کا پہلا حصہ بعینہٖ وہی ہے جو آیت ۴۸ کا ہے‘ دوسرے حصے میں معمولی تغیر ہے‘ چنانچہ یہاں فرمایا:
وَ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیۡدًا ﴿۱۱۶﴾
’’اور جس نے بھی اللہ کے ساتھ شرک کیا وہ بلاشبہ گمراہی اور ضلالت میں بہت دُور نکل گیا.‘‘ گویا یہاں یہ بات مزید واضح ہو گئی کہ شرک میں ملوث ہونے والا انسان گمراہی میں اتنی دور نکل جاتا ہے کہ اس کے بعد ا س کے لیے معافی اور بخشش کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا.
قرآن حکیم کے مطالعہ سے دوسری اہم بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ گناہ اور یہ جرم بہت ہمہ گیر ہے اور اتنا عام ہے کہ اللہ کو ماننے والوں کی اکثریت بھی شعوری یا غیرشعوری طور پر اس میں ملوث ہو جاتی ہے. سورۃ یوسف میں ارشاد ہوتا ہے:
وَ مَا یُؤۡمِنُ اَکۡثَرُہُمۡ بِاللّٰہِ اِلَّا وَ ہُمۡ مُّشۡرِکُوۡنَ ﴿۱۰۶﴾
’’اور نہیں ایمان لاتے ان میں سے اکثر لوگ اللہ پر مگر ساتھ ہی (کسی نہ کسی نوعیت کا) شرک بھی کرتے ہیں.‘‘
یعنی اکثر لوگ اللہ کو مانتے ہیں‘ اس پر ایمان لاتے ہیں‘ لیکن توحیدِ خالص کے ساتھ اللہ کو ماننا‘ اس پر ایمان رکھنا کسی کسی ہی کو نصیب ہوتا ہے. علامہ اقبال نے شرک کی اسی ہمہ گیری کی طرف بایں الفاظ اشارہ کیا ہے : ؎
براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے!
ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں
تیسری اہم ترین بات یہ کہ شرک کی بہت سی اقسام ہیں اور یہ مرض بہت متنوع صورتوں میں ظہور کرتا ہے‘ بلکہ یہ بات بھی جان لینی ضروری ہے کہ ہر دَور کا ایک خاص شرک ہوتا ہے.اگر کوئی انسان اپنے دَور کے شرک کو نہ پہچان پائے تو ہو سکتا ہے کہ وہ سابقہ ادوار کے تمام شرکوں سے بچا ہوا ہو اور اپنے خیال میں وہ بہت بڑا موحّدبنا پھرتا ہو لیکن وہ لاعلمی میں اپنے دَور کے شرک میں ملوث ہو گیا ہو. میرے نزدیک اس دَور کا جو شرک سب سے عام اور سب سے زیادہ پھیلا ہوا ہے وہ مادّہ پرستی کا شرک ہے. ہمارے ہاں مادّے اور اس کی تأثیرات پر پورا یقین وا عتماد کیا جاتا ہے لیکن ذاتِ باری تعالیٰ پر اتنا بھی توکل‘ یقین اور اعتماد نہیں ہے جو ایمانِ حقیقی کے لیے لازمی ولابدی ہے. اقبال نے اسے اس شعر میں بڑی خوبصورتی سے کہا ہے کہ : ؎
بُتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے؟
ایمان اصل میں نام ہے اللہ پر توکل‘ اعتماد اور بھروسے کا‘ اوراس کی نفی کفر اور شرک ہے. لہذا شرک کے بارے میں بہت حساس ہونے کی ضرورت ہے. فارسی زبان کا ایک شعر ہے: ؎ بہر رنگے کہ خواہی جامہ می پوش
من اندازِ قدت را می شناسم
یعنی ’’تم چاہے کسی رنگ کا لباس پہن لو‘ کوئی بھیس بدل لو‘ میں تمہیں تمہارے قد سے پہچان لوں گا‘‘. شرک کے معاملے میں بھی بالکل یہی کیفیت درکار ہے کہ یہ بیماری جس صورت میں بھی کسی دَور میں اور کسی معاشرے میں ظہور کر رہی ہو ‘نگاہ اتنی دُور رَس ہو کہ انسان پہچان لے کہ اس دَور میں شیطان نے شرک کو اس صورت میں جلوہ گر کیا ہے‘ تب ہی اس بات کا امکان ہے کہ انسان شرک سے اپنے آپ کو بچا سکے.
چوتھی اہم بات جو درحقیقت ان تینوں باتوں کا منطقی نتیجہ ہے‘ یہ ہے کہ شرک سے کلیتاً بچنا آسان کام نہیں ہے. یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم ں کا ذکر قرآن مجید میں جب آتا ہے تو اکثر مقامات پر جہاں آکر بات ختم ہو تی ہے وہاں یہ الفاظ آتے ہیں کہ: مَا کَانَ مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ’’آپ (یعنی ابراہیم علیہ السلام ) مشرکوں میں سے نہ تھے‘‘. حضرت ابراہیم ؑ کی عظمتِ جلیلہ کو ذہن میں رکھیے. آنجنابؑ ہمارے رسول اللہﷺ کے جدامجد ہیں‘ ابوالانبیاء ہیں‘ امام الناس ہیں اور خلیل اللہ ہیں. ہم درود میں بھی ان کی مثال پیش کرتے ہیں . معلوم ہوا کہ یہ آخری سند ہے جو اللہ کی طرف سے کسی بندے کو عطا ہو جائے. یہ سب سے بڑا اور قیمتی سرٹیفکیٹ اور testimonial ہے جو اللہ کی طرف سے کسی کود یا جائے کہ ’’میرا یہ بندہ شرک کے ہر شائبہ سے پاک ہے‘‘.
اب ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ شرک اصل میں کہتے کسے ہیں! شرک یعنی اشراک باللہ(اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کردینا) کی اصل حقیقت کیا ہے جس کو اس آیۂ مبارکہ میں ظلمِ عظیم قرار دیا گیاہے؟ عربی زبان میں ظلم کی تعریف ہے ’’وَضْعُ الشَّیْئِ فِیْ غَیْرِ مَحَلِّہٖ‘‘ یعنی کسی چیز کو اُس کے اصل اور حقیقی مقام سے ہٹا کر کسی اور جگہ رکھ دینا.یہ فعل ظلم کہلاتا ہے. ہر چیز کو اُس کے اصل و حقیقی مقام پر رکھیے‘ یہ عدل ہے‘ یہ انصاف ہے. اب غور فرمایئے تو یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ شرک میں دو چیزیں لامحالہ ہوں گی. یااللہ کو اس کے مقامِ رفیع سے گرا کر مخلوقات کی صف میں لاکھڑا کیا جائے گا اور کوئی صفت جو صرف مخلوقات کے لیے ہو گی اس سے اللہ کو متصف کر دیا جائے گا‘ یا مخلوقات میں سے کسی کو اٹھا کر اللہ کے برابر لا بٹھایا جائے گا اور جو صفات صرف باری تعالیٰ کے لیے مختص ہیں ان سے کسی مخلوق کو متصف تسلیم کیا جائے گا. یہ دونوں صورتیں یکساں ’’ظلم‘‘ ہیں. یہ دونوں افعال’’وَضْعُ الشَّیْئِ فِیْ غَیْرِ مَحَلِّہٖ‘‘ کے ذیل میں آئیں گے. اللہ کو اس کی منفرد شانِ رفیع اور مقامِ جلیل سے گرانا بہت بڑا ظلم ہے اور مخلوق میں سے کسی کو اس کے اصل و حقیقی مقام سے اٹھا کر اللہ کا ہمسر‘ ہم پلہ‘ ند‘ ضد‘ کفو اور مدّمقابل بنا دینا‘ یہ بھی بہت بڑا ظلم اور بہت بڑی ناانصافی ہے.