اب آیئے شرک کی تیسری قسم کی طرف‘ یعنی اللہ کے حقوق میں کسی کو ساجھی بنا دینا. اگرہم اللہ کے حقوق شمار کریں تو ہم اس کا اِحصاء نہ کر سکیں گے. لیکن ایک لفظ ایسا ہے کہ ’’ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں‘‘ کے مصداق اس میں سب حقوق آ جاتے ہیں‘ اور وہ لفظ ہے ’’عبادت‘‘.اللہ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے.لیکن اس لفظ عبادت کی قدرے تشریح ہو گی تو بات سمجھ میں آئے گی. اس ضمن میں قارئین کرام سے درخواست ہے کہ پانچ چیزیں گن کر ذہن نشین کر لیں. عبادت میں اہم ترین چیز ہے ’’اطاعت‘‘. توحید فی الاطاعت یہ ہے کہ اللہ کی اطاعت تمام اطاعتوں پر غالب آجائے. بقیہ تمام اطاعتیں اللہ کی اطاعت کے تابع ہوں. اگر کسی کی اطاعت اللہ کی اطاعت کے برابر ہو گئی تو یہ شرک فی الاطاعت ہو جائے گا. تمام اطاعتیں اللہ کے تابع ہوں تو یہ توحید ہے. نبی اکرمﷺ نے فرمایا: لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ (۱) ’’کسی مخلوق کی اطاعت نہیں ہوگی اس چیز میں کہ جس میں خالق کی معصیت لازم آ رہی ہو‘‘.اللہ کی اطاعت کے تابع والدین کی اطاعت بھی ہے‘ اساتذہ کی بھی ہے‘ اولی الامر کی بھی ہے‘ حکام کی بھی ہے. کوئی اطاعت اللہ کی اطاعت سے آزادنہ ہو. اگر آزاد ہوئی تو شرک فی الاطاعت لازم آ جائے گا. یہاں یہ نکتہ بھی نوٹ کر لیجیے کہ اللہ کی اطاعت جناب محمد رسول اللہﷺ کے واسطے سے ہو گی. قرآن مجید بھی ہمیں نبی اکرمﷺ کے توسط سے ملا ہے.
دوسری چیز ہے ’’محبت‘‘. تمام محبتیں اللہ کی محبت کے تابع ہو جائیں. کوئی محبت اللہ کی محبت کے ہم پلہ نہ ہو. ہمارے قلب کے سنگھاسن پر بالاترین محبت اللہ کی براجمان ہو. بقیہ تمام محبتیں اللہ کی محبت کے تابع ہو جائیں. اگر کسی اور کی محبت اللہ کی محبت کے برابر آ کر بیٹھ گئی تو جان لیجیے کہ یہی شرک ہے. یہ دو چیزیں ’’اطاعت‘‘ اور ’’محبت‘‘ بہت اہم ہیں. ان کی تفصیل میں جانے کا موقع نہیں ہے. بس یوں سمجھ لیجیے کہ یہ وہ اصول ہیں کہ جن کو انسان خود حالات پر منطبق کر سکتا ہے. اصول اگر ہاتھ میں آجائیں تو ان کا اطلاق کر کے انسان تما م مسائل حل کر لے گا. ایک ضروری بات یہاں پھر نوٹ کر لیجیے کہ اطاعت اور محبت دونوں اعتبارات سے اللہ کے ساتھ اللہ کے رسولﷺ بھی شامل ہیں. اللہ کی اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت تمام اطاعتوں پر غالب ہو تو یہ توحید ہے.کوئی اور اطاعت ان کے ہم پلہ ہو گئی یا بالاترہو گئی اور کوئی محبت ان کے برابر ہو گئی یا بڑھ گئی تو یہ شرک فی (۱) سنن الترمذی‘ کتاب الجھاد عن رسول اللّٰہ ﷺ ‘ باب ما جاء لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق. الاطاعت اور شرک فی المحبت کی صورت ہو گی.
تیسری چیز ہے دعا . نبی اکرمﷺ نے فرمایا : اَلدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ (۱) ’’دعا عبادت کا جوہر ہے‘‘.ایک اور حدیث میں ہے کہ: اَلدُّعَاءُ ھُوَ الْعِبَادَۃُ (۲) ’’دعا ہی اصل عبادت ہے‘‘.چنانچہ دعا اللہ کے سوا کسی سے نہیں کی جائے گی. قرآن مجید میں فرمایا گیا: وَ لَا تَدۡعُ مَعَ اللّٰہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ ۘ (القصص:۸۸) ’’اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو مت پکارو‘‘. پکارو اسی کو‘ مانگو اسی سے. یہ ہے توحید فی الدعاء اور اگر اللہ سے بھی دعا کر رہے ہو ‘ مانگ رہے ہو اور کسی اور سے بھی تو یہ شرک فی الدعا ہے.
چوتھی چیز ہے اخلاص. اگر مذکورہ بالا تینوں باتوں میں ریاکاری کا کہیں شائبہ ہو گیا تو یہ بھی شرک ہے. نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
مَنْ صَلّٰی یُرَائِیْ فَقَدْ اَشْرَکَ‘ وَمَنْ صَامَ یُرَائِیْ فَقَدْ اَشْرَکَ‘ وَمَنْ تَصَدَّقَ یُرَائِیْ فَقَدْ اَشْرَکَ (۳)
’’جس نے دکھلاوے کے لیے نماز پڑھی وہ شرک کر چکا‘ جس نے دکھلاوے کے لیے روزہ رکھا وہ شرک کر چکااور جس نے دکھاوے کے لیے صدقہ و خیرات کیا وہ شرک کر چکا.‘‘
یہ شرکِ خفی کہلاتا ہے جو نظر نہیں آتا. اقبال نے جو کہا ہے کہ ؏
’’ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں!‘‘
تواس کا اطلاق اسی نوع کے شرک پر ہوتا ہے. حضورﷺ نے تجزیہ کر کے بتا دیا کہ اگر ایک شخص نماز پڑھنے کھڑا ہوا اور اس نے دیکھا کہ کوئی مجھے دیکھ رہا ہے‘ اس لیے سجدہ طویل کر دیا تو اس نے شرکِ خفی کا ارتکاب کیا‘ چونکہ اس طرح اس کے سجدے کے مسجود دو ہو گئے. وہ اللہ کو بھی سجدہ کر رہا ہے اور جسے دکھا رہا ہے گویا اسے بھی سجدہ کر رہا ہے.معلوم ہوا کہ ریاء وسُمعہ یعنی عبادت دوسروں کو دکھانے یا سنانے کی نیت سے کرنا شرک فی الاخلاص ہے.
خواہشِ نفس کی بلاقید پیروی بھی شرک ہے. قرآن مجید میں دو جگہ یہ مضمون آیاہے:
اَرَءَیۡتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ ؕ (الفرقان:۴۳) اور:
(۱) سنن الترمذی‘ کتاب الدعوات‘ باب منہ.
(۲) سنن الترمذی‘ کتاب تفسیر القرآن‘ باب ومن سورۃ البقرۃ.
(۳) مسند احمد‘ کتاب مسند الشامیین‘ باب حدیث شداد بن أوس. اَفَرَءَیۡتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ (الجاثیۃ:۲۳)
’’(اے نبی!)کیا آپ نے اس شخص کے حال پر غور کیا جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنا لیا؟‘‘
یہاں لفظ ’’الٰہ‘‘ آیا ہے جو ہمارے کلمۂ توحید کے جزوِ اوّل کا لفظ ہے. معلوم ہوا کہ صرف سامنے رکھی ہوئی مورتیاں ہی نہیں پوجی جاتیں‘ اندر کی نفسانی خواہشات کو بھی پوجا جاتا ہے.
باطن کے اصنام میں مال و دولت کی وہ محبت بھی شامل ہے جس کے حصول میں حلال و حرام کی تمیزختم ہو جائے. نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
تَعِسَ عَبْدُ الدِّیْنَارِ وَعَبْدُ الدِّرْھَمِ (۱)
’’ہلاک ہو جائے (یا ہلاک ہو گیا )دینار و درہم کا بندہ‘‘.
آنحضورﷺ نے لفظ کون سا استعمال فرمایا! عبد. اس لیے کہ جس شخص کے دل میں دولت کی محبت اتنی ہے کہ اسے کوئی غرض نہیں کہ حلال سے آئے یا حرام سے‘ جائز سے آئے یا ناجائز سے‘ صحیح راستے سے آئے یا غلط راستے سے‘ دولت کی اس طمع اور محبت کامطلب ہے کہ دولت اس کا معبود ہے‘ چاہے وہ ہندوؤں کی طرح ’’لکشمی دیوی‘‘ کو نہ پوج رہا ہو. شریعت کی قیود و حدود اور شرائط سے بے نیاز ہو کر دولت کی چاہت بھی شرک ہے.
اس ضمن میں پانچویں اور آخری چیز یہ ہے کہ کچھ مراسمِ عبودیت ایسے ہیں جوصرف اللہ کے لیے خاص ہیں. کسی کو بھی سجدہ نہیں ہو گاسوا اللہ کے. اس معاملے میں شیخ احمد سرہندیؒ کا جو مقام تھا اور ان کی جو عزیمت تھی‘ اسے علامہ اقبال نے خوب تعبیر کیا ہے : ؎
گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفسِ گرم سے ہے گرمیٔ احرار
سجدہ صرف اللہ کے لیے ہے. اسی طرح رکوع بھی اللہ کے لیے خاص ہے‘ اس کے خلاف عمل شرک فی العبادۃ میں شمار ہو گا.
یہاں موقع کی مناسبت سے شرک کی چند موٹی موٹی اقسام ہی بیان کی جا سکی ہیں‘ لیکن ان سے اندازہ ہو گیا ہو گا کہ شرک کا مسئلہ کتنا ہمہ گیرہے. ہر مسلمان کو شعوری طور پر شرک سے بچنے کی فکر کرنی (۱) سنن ابن ماجہ‘ کتاب الزھد‘ باب فی مسند المکثرین. چاہیے. اس کی تیر بہ ہدف تدبیر یہ ہے کہ اللہ کی ذات پر ہمارا یقینِ محکم ہو. ہمارا جتنا توکل اور اعتماد اللہ کی ذات اور اس کی ربوبیت پر بڑھے گا اتنا ہی ہم اِن تمام چیزوں سے بچ سکیں گے. جیسے علامہ اقبال نے کہا ہے : ؎
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے!
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
اگر ہمیں التزامِ توحید اور اجتنابِ شرک کی سعادت نصیب ہو جائے تو یہ ہماری اُخروی کامیابی اور فوز و فلاح کے لیے کفایت کرے گی. ٭٭٭
وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَoo