یہی وجہ ہے کہ اس مقام پر اِن چاروں چیزوں کی جو بلندترین منازل ہیں اُن کاذکر ہوا. یعنی ایمان کی آخری منزل‘ اس کا لبِّ لباب اور اصل حاصل اللہ کی وحدانیت وربوبیت پر دل کا جم جانا‘ ٹھک جانا اور اس پر پورا وثوق اور اعتماد قائم ہو جانا‘ پھر اس پر استقامتِ فکری‘ نظری اور عملی کا ہونا. اسی طرح ’’تواصی بالحق‘‘ کا بلند ترین مقام اور اس کی بلند ترین منزل ’’دعوت الی اللہ‘‘ ہے. اللہ تعالیٰ جو اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے اور جس ذاتِ باری تعالیٰ کے سوا ’’الحق‘‘ کا مصداق کوئی نہیں‘ ازروئے الفاظِ قرآنی: ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الۡحَقُّ لہذا اس کی طرف دعوت‘ اس کی طرف بلانا گویا ’’تواصی بالحق‘‘ کی بلند ترین منزل ہے. اسی طرح صبر کے ضمن میں یہاں اس مقام کا بیان ہو رہا ہے جہاں صرف مخالفتوں کا برداشت کر لینا اور لوگوں کی طرف سے پیش آنے والی مصیبتوں کا جھیل جانا ہی کافی نہیں ہوتا‘ بلکہ گالیوں کے جواب میں دعائیں دینا اور لوگوں کی طرف سے ایذا رسانی کے جواب میں ان کی خیر خواہی اور بہی خواہی کا اظہار کیا جانا‘ اور پروردگار سے ان کے لیے ہدایت کی دعائیں مانگنا مطلوب ہوتا ہے. یہ ہے صبر کی بلند ترین منزل. گویا یہاں جن کیفیات اور صفات کا ذکر ہو رہا ہے انہیں ہر اعتبار سے انسانیت کی معراج قرار دیا جا سکتا ہے. ان صفات کا ایک مکمل نقشہ اور مصداقِ کامل تو یقینا ہماری نگاہوں کے سامنے محمدٌ رسول اللہﷺ کی شخصیتِ مبارکہ ہے‘ لیکن آپؐ کے بعد اس نقشے میں فِٹ آنے والے درحقیقت وہ لوگ ہیں جنہیں بالعموم اولیاء اللہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے.
یہ ہے ان مضامین کا اجمالی تذکرہ‘ جن کا تدریجی ارتقاء ہمارے منتخب نصاب کے حصہ اوّل میں ہو رہا ہے.اب آیئے اس کے ایک ایک جزو پر غور کرنے کی کوشش کریں!
فرمایا: اِنَّ الَّذِیۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ’’یقینا وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ ہمارا ربّ اللہ ہے‘‘ یعنی جو پہچان لیں کہ ہمارا مالک و آقا بھی اللہ ہے‘ ہمارا خالق و رازق بھی اللہ ہے‘ ہمارا مشکل کشا و حاجت روا بھی اللہ ہے. ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا ’’پھر اس پر وہ جم گئے‘‘.واقعہ یہ ہے کہ اللہ کی معرفت اتنی مشکل نہیں ہے. اگر انسان کی فطرت مسخ نہ ہو گئی ہواور عقل کسی غلط رُخ پر نہ پڑ گئی ہو تو وہ عقلِ سلیم اور فطرتِ صحیحہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی اجمالی معرفت تک پہنچ جاتا ہے‘ لیکن اللہ کو پہچاننے کے بعد اس کی ربوبیت اور الوہیت پر دل کا ٹھک جانا‘ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے.