حَظِ ّ عظیم
سورۂ حٰم السّجدۃ کی آیات ۳۰ تا۳۶ کی روشنی میں


نحمدہٗ ونصلی علٰی رَسولہِ الکریم 
امَّا بَعد فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ . بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 


اِنَّ الَّذِیۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا تَتَنَزَّلُ عَلَیۡہِمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوۡا وَ لَا تَحۡزَنُوۡا وَ اَبۡشِرُوۡا بِالۡجَنَّۃِ الَّتِیۡ کُنۡتُمۡ تُوۡعَدُوۡنَ ﴿۳۰﴾نَحۡنُ اَوۡلِیٰٓؤُکُمۡ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ ۚ وَ لَکُمۡ فِیۡہَا مَا تَشۡتَہِیۡۤ اَنۡفُسُکُمۡ وَ لَکُمۡ فِیۡہَا مَا تَدَّعُوۡنَ ﴿ؕ۳۱﴾نُزُلًا مِّنۡ غَفُوۡرٍ رَّحِیۡمٍ ﴿٪۳۲﴾وَ مَنۡ اَحۡسَنُ قَوۡلًا مِّمَّنۡ دَعَاۤ اِلَی اللّٰہِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ﴿۳۳﴾وَ لَا تَسۡتَوِی الۡحَسَنَۃُ وَ لَا السَّیِّئَۃُ ؕ اِدۡفَعۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ فَاِذَا الَّذِیۡ بَیۡنَکَ وَ بَیۡنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیۡمٌ ﴿۳۴﴾وَ مَا یُلَقّٰہَاۤ اِلَّا الَّذِیۡنَ صَبَرُوۡا ۚ وَ مَا یُلَقّٰہَاۤ اِلَّا ذُوۡحَظٍّ عَظِیۡمٍ ﴿۳۵﴾وَ اِمَّا یَنۡزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیۡطٰنِ نَزۡغٌ فَاسۡتَعِذۡ بِاللّٰہِ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ ﴿۳۶﴾ ………… صدق اللّٰہ العظیم 
’’یقینا وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ ہمارا ربّ اللہ ہے ‘پھر اس پر جم گئے‘ اترتے ہیں ان پر فرشتے (یہ کہتے ہوئے) کہ نہ غم کھاؤ اور نہ خوف‘ اوربشارت حاصل کرو اُس جنت کی جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا. ہم تمہارے مددگار ہیں دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی‘ اور تمہارے لیے وہاں وہ سب کچھ ہے جسے تمہارا جی چاہے اور تمہارے لیے وہاں وہ سب کچھ ہو گا جو تم طلب کرو گے.

یہ مہمان نوازی ہو گی اُس (اللہ) کی طرف سے جو بڑا بخشش فرمانے والا‘ نہایت رحیم ہے. اور اس شخص سے بہتر بات کس کی ہو سکتی ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور کہے کہ میں بھی مسلمانوں ہی میں سے ہوں. اور (ہرگز)برابر نہیں ہے نیکی اور بدی. آپ (بدی کو) دفع کریں نہایت احسن طریقے سے تو(اس کا نتیجہ یہ نکلے گاکہ)وہ شخص جس کے اور آپ کے مابین عداوت تھی ‘(آپ کا) دلی دوست جیسا ہو جائے گا. اور یہ خوبی نہیں دی جاتی سوائے اُن لوگوں کے جنہوں نے صبر کیا‘ اور یہ اچھائی نہیں دی جاتی مگر بڑے نصیب والوں کو. اور اگر (کبھی) شیطان کی جانب سے تمہیں کوئی وسوسہ ورغلائے توفوراً اللہ کی پناہ میں آ جاؤ. یقینا وہ سب کچھ سننے والا‘ سب کچھ جاننے والاہے‘‘.

مطالعۂ قرآن حکیم کے جس منتخب نصاب کا سلسلہ وار بیان ہدیۂ قارئین ہو رہا ہے اس کا پہلا حصہ قرآن حکیم کے چند ایسے مقامات پر مشتمل ہے جن میں انسان کی کامیابی اور نجات کی شرائط اور اس کی فوز و فلاح کے لوازم کا بیان نہایت جامعیت کے ساتھ ہوا. اس طرح ان مقامات کے مطالعے سے قرآن حکیم کے انسانِ مطلوب کی پوری سیرت و کردار کا ایک بھرپور اور مکمل نقشہ ابھر کر ہمارے سامنے آجاتا ہے. چنانچہ اس مقام پر بھی جو اس حصے (جامع اسباق) کا آخری درس ہے‘ انسان کی تعمیر کردار اور اُخروی نجات کے چار لازمی اوصاف کا بیان آیا ہے. یعنی ایمان کا ذکر بھی موجود ہے ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کی صورت میں‘ اور ایمان کے ساتھ ہی اعمالِ صالحہ کا بھی ذکر کیا گیا ہے. یہاں ’’عملِ صالح‘‘ ایک مرتبہ تو لفظ ’’استقامت‘‘ میں اور دوسری مرتبہ جوں کا توں ’’وَ عَمِلَ صَالِحًا ‘‘ کی شکل میں مذکور ہے. ’’تواصی بالحق‘‘ کے ذیل میں یہاں ’’دعوت الی اللہ‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے‘ اور آخر میں پھر’’صبر‘‘ کا ذکر نہایت اہتمام اور شدّومدّ کے ساتھ کیا گیا ہے. گویا وہی چاروں مضامین جو سورۃ العصر میں بیان کیے گئے ہیں‘ ذرا مختلف پیرائے میں ’’آیۂ بِر‘‘ میں دوبارہ ہمارے سامنے آ جاتے ہیں. اس سے قدرے مختلف اسلوب کے ساتھ انہی چاروں مضامین کا بیان سورۂ لقمان کے دوسرے رکوع میں ہوا ہے. اور پھر یہی مضامین ان زیربحث آیات میں بھی ایک نئی شان کے ساتھ ہمیں دعوتِ فکر دیتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں.

اس مشابہت کے علاوہ ان چاروں مقامات میں ایک اور ربط بھی ہے اور وہ یہ کہ ان میں مضامین کا ایک تدریجی ارتقاء ہے. چنانچہ سورۃالعصر کو گویا base line قرار دیاجا سکتا ہے.اس میں انسان کی کامیابی کے کم از کم لوازم کا بیان ہے‘ یعنی مجرّد نجات‘ ناکامی سے بچنے کی کم سے کم شرائط. پھر اس سے آگے نسبتاً بلند تر مقام سے ہمیں آشنا کیا گیا اور وہ مقامِ بِر و تقویٰ ہے جو آیۂ بِرّ میں ہمارے سامنے آیا. اس سے بھی ایک نسبتاً بلند تر منزل کا بیان جس کو ہم ’’مقامِ عزیمت‘‘ سے تعبیر کر سکتے ہیں‘ سورۂ لقمان کے دوسرے رکوع میں آیا ہے. یعنی ’’ اِنَّ ذٰلِکَ مِنۡ عَزۡمِ الۡاُمُوۡرِ ‘‘ کی صورت میں. اور ان چاروں امور کے اعتبار سے واقعتا بلند ترین منزلیں وہ ہیں جن کا ذکر ان آیاتِ مبارکہ میں ہو رہا ہے. اس کے لیے عنوان اگر انہی آیات میں مستعمل الفاظ سے لیا جائے تو وہ ’’حَظِّ عظیم‘‘ ہو گا‘ یعنی بڑا نصیبہ‘ بہت ہی یاوربخت.اور اگر قرآن مجید کے ایک دوسرے مقام کے حوالے سے اس کا مرتبہ معین کیا جائے تو یہ درحقیقت مقامِ ولایت کا بیان ہے. 

یہی وجہ ہے کہ اس مقام پر اِن چاروں چیزوں کی جو بلندترین منازل ہیں اُن کاذکر ہوا. یعنی ایمان کی آخری منزل‘ اس کا لبِّ لباب اور اصل حاصل اللہ کی وحدانیت وربوبیت پر دل کا جم جانا‘ ٹھک جانا اور اس پر پورا وثوق اور اعتماد قائم ہو جانا‘ پھر اس پر استقامتِ فکری‘ نظری اور عملی کا ہونا. اسی طرح ’’تواصی بالحق‘‘ کا بلند ترین مقام اور اس کی بلند ترین منزل ’’دعوت الی اللہ‘‘ ہے. اللہ تعالیٰ جو اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے اور جس ذاتِ باری تعالیٰ کے سوا ’’الحق‘‘ کا مصداق کوئی نہیں‘ ازروئے الفاظِ قرآنی: ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الۡحَقُّ لہذا اس کی طرف دعوت‘ اس کی طرف بلانا گویا ’’تواصی بالحق‘‘ کی بلند ترین منزل ہے. اسی طرح صبر کے ضمن میں یہاں اس مقام کا بیان ہو رہا ہے جہاں صرف مخالفتوں کا برداشت کر لینا اور لوگوں کی طرف سے پیش آنے والی مصیبتوں کا جھیل جانا ہی کافی نہیں ہوتا‘ بلکہ گالیوں کے جواب میں دعائیں دینا اور لوگوں کی طرف سے ایذا رسانی کے جواب میں ان کی خیر خواہی اور بہی خواہی کا اظہار کیا جانا‘ اور پروردگار سے ان کے لیے ہدایت کی دعائیں مانگنا مطلوب ہوتا ہے. یہ ہے صبر کی بلند ترین منزل. گویا یہاں جن کیفیات اور صفات کا ذکر ہو رہا ہے انہیں ہر اعتبار سے انسانیت کی معراج قرار دیا جا سکتا ہے. ان صفات کا ایک مکمل نقشہ اور مصداقِ کامل تو یقینا ہماری نگاہوں کے سامنے محمدٌ رسول اللہ کی شخصیتِ مبارکہ ہے‘ لیکن آپؐ کے بعد اس نقشے میں فِٹ آنے والے درحقیقت وہ لوگ ہیں جنہیں بالعموم اولیاء اللہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے. 

یہ ہے ان مضامین کا اجمالی تذکرہ‘ جن کا تدریجی ارتقاء ہمارے منتخب نصاب کے حصہ اوّل میں ہو رہا ہے.اب آیئے اس کے ایک ایک جزو پر غور کرنے کی کوشش کریں!

فرمایا: 
اِنَّ الَّذِیۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ’’یقینا وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ ہمارا ربّ اللہ ہے‘‘ یعنی جو پہچان لیں کہ ہمارا مالک و آقا بھی اللہ ہے‘ ہمارا خالق و رازق بھی اللہ ہے‘ ہمارا مشکل کشا و حاجت روا بھی اللہ ہے. ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا ’’پھر اس پر وہ جم گئے‘‘.واقعہ یہ ہے کہ اللہ کی معرفت اتنی مشکل نہیں ہے. اگر انسان کی فطرت مسخ نہ ہو گئی ہواور عقل کسی غلط رُخ پر نہ پڑ گئی ہو تو وہ عقلِ سلیم اور فطرتِ صحیحہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی اجمالی معرفت تک پہنچ جاتا ہے‘ لیکن اللہ کو پہچاننے کے بعد اس کی ربوبیت اور الوہیت پر دل کا ٹھک جانا‘ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے.