حقیقت یہ ہے کہ اس آیۂ مبارکہ اِنَّ الَّذِیۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا میں جس بلند مرتبہ و مقام کا اور جن کیفیات کا ذکر ہو رہا ہے قرآن مجید کے دوسرے مقامات پر اسی کو مرتبۂ ’’ولایت‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے‘ اس لیے کہ اس آیت میں آگے جو نویدِ جانفزا ’’اَلَّا تَخَافُوۡا وَ لَا تَحۡزَنُوۡا ‘‘ کے الفاظ میں دی جا رہی ہے قرآن مجید میں انہی الفاظ سے اولیاء اللہ کو خوشخبری سنائی گئی ہے.فرمایا: اَلَاۤ اِنَّ اَوۡلِیَآءَ اللّٰہِ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ﴿ۚۖ۶۲﴾الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ کَانُوۡا یَتَّقُوۡنَ ﴿ؕ۶۳﴾ (یونس) یعنی حقیقی ایمان جنہیں میسر آگیا ہو اور جو اللہ کے تقویٰ کو فی الواقع صحیح معنوں میں اپنی شخصیتوں میں جذب کر چکے ہوں‘ ان لوگوں کے لیے نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ کوئی حزن. یہی درحقیقت ایمان کا (۱) مسند احمد. سنن الترمذی اور سنن ابن ماجہ میں یہ الفاظ ہیں : قُلْ رَبِّیَ اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقِمْ ماحصل ہے. اس لیے کہ ایمان اَمن سے بنا ہے ‘ اور اَمن کی ضد خوف بھی ہے اور غم بھی. گویا ایمان عطا کر کے غم و حزن سے انسان کو بالکلیہ آزاد اور بے نیاز کر دیا گیاہے.
مقامِ ولایت کی عظمت کا ذکر کرنے کے بعد اللہ ربّ العزت نے ان کے علوِّ شان کو پھر یوں بیان کیا : تَتَنَزَّلُ عَلَیۡہِمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ کہ ان پر ملائکہ کا نزول ہوتا ہے. ’’تَتَنَزَّلُ ‘‘ عربی قواعد کی رو سے فعل مضارع کا صیغہ ہے ‘اور عربی میں فعل مضارع حال اور مستقبل دونوں کا جامع ہوتا ہے. گویااس کا یہ ترجمہ بھی درست ہو گاکہ ’’اترتے ہیں ان پر فرشتے‘‘ اور یہ بھی صحیح ہوگا کہ ’’اتریں گے ان پر فرشتے‘‘. اور واقعہ یہ ہے کہ یہ دونوں مفہوم یہاں جمع ہیں. ملائکہ کا نزول اس بشارت اور اس نویدِ جانفزا کے ساتھ ہوتا ہے کہ: اَلَّا تَخَافُوۡا وَ لَا تَحۡزَنُوۡا ’’کہ نہ خائف ہو ں اور نہ غمگین ہوں‘‘. خوف و غم سے اب تمہارا کوئی تعلق نہیں. وَ اَبۡشِرُوۡا بِالۡجَنَّۃِ الَّتِیۡ کُنۡتُمۡ تُوۡعَدُوۡنَ ﴿۳۰﴾ ’’اور خوشخبری حاصل کرو اُس جنت کی جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا رہا‘‘.