یہاں مفسرین کے مابین یہ مسئلہ زیر بحث رہا ہے کہ ملائکہ کے اِس نزول کا وقت کون سا ہے. ملائکہ کے نزول کا ایک وقت تو وہ ہے جو سب کے نزدیک مُجمع علیہ ہے‘ اور وہ یہ کہ ملائکہ کا نزول بندۂ مؤمن پر‘ اللہ کے دوستوں پر‘ اللہ کے چاہنے والوں پر اُن کے انتقال سے متصلاً قبل ہوتا ہے ‘جبکہ وہ اِس عالَم سے اُس عالَم کو منتقل ہونے کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں. گویا اُس عالَم کے سفیر ان کو خوش آمدید کہنے کے لیے اور اُن کا استقبال کرنے کے لیے اِس عالم میں پہنچے ہوتے ہیں. یہ چیز بعض روایات سے بھی ثابت ہے اور اللہ کے نیک بندوں کے انتقال کے وقت بعض حالات جو متواتر سننے اور مشاہدے میں آتے رہے ہیں‘ ان سے بھی ان کی تصدیق ہوتی ہے. اس اعتبار سے آیت کا مفہوم یہ ہو گا کہ اب تمہارے حزن اور خوف کا دَور ختم ہوا‘تمہارے رنج و محن کا دَور گزر گیا. اِس دنیا میں ‘جو تمہارا دار الامتحان تھا‘ جس میں تمہیں طرح طرح کی تکلیفیں اور طرح طرح کی آزمائشیں درپیش رہیں‘ قِسم قِسم کے مسائل سے سابقہ رہا‘ اب تم ان تمام الجھنوں سے چھوٹ گئے‘ لہذا اب خوشخبری حاصل کرو کہ اس کشمکشِ خیر و شر اور اس معرکۂ حق و باطل میں تم سرخرو اور کامیاب ہو کر عالمِ آخرت کی طرف کوچ کر رہے ہو. یہ مفہوم تو بالکل واضح اور متفق علیہ ہے.

نزولِ ملائکہ کا دوسرا مفہوم جس کی طرف قرآن مجید کی بعض دیگر آیات سے رہنمائی ملتی ہے‘ یہ ہے کہ بندۂ مؤمن پر‘ اللہ کے دوستوں پر‘ اللہ کے چاہنے والوں پر حیاتِ دُنیوی کے دَوران بھی مسلسل ملائکہ کا نزول ہوتا ہے. اس کو یوں سمجھنا چاہیے کہ یہ دنیا درحقیقت دار الامتحان ہے. یہاں خیرو شر کی ایک کشمکش اور ایک چومکھی جنگ لڑی جا رہی ہے. اس چومکھی جنگ کا ایک میدان انسان کے باطن میں ہے جس میں شر کے محرکات بھی ہیں اور خیر کے داعیات بھی. شر کے محرکات میں وہ نفس امّارہ بھی ہے جس کے بارے میں قرآن مجید خود کہہ رہا ہے : اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ (یوسف:۵۳)’’یقینایہ نفس (یعنی نفس امّارہ) برائی کی طرف راغب کرنے اور کھینچنے والا ہے.‘‘ لیکن اسی باطنی میدان میں خیر کے محرکات اور قلب و روح کے داعیات بھی ہیں‘ جو انسان کو بلندی اور عالمِ عُلوی کی طرف اور خیر اور بھلائی کی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں. یہ خیر و شر کی باطنی کشمکش ہے جس کا تجربہ ہر انسان کو ہے. گویا اس کی داخلی شخصیت کا ایک میدانِ کارزار ہے‘ جس میں ہر وقت یہ جنگ جاری رہتی ہے.

پھر یہی معرکۂ خیر و شر خارج میں بھی برپا ہے. انسان کے خارجی ماحول میں خیر کی قوتیں بھی موجود ہیں اور شر کی قوتیں بھی. انسانوں ہی میں وہ لوگ بھی ہیں جو خیر کی طرف بلانے والے ہیں‘ جیسے اولیاء اللہ ہیں‘ مبلغینِ حق ہیں‘ داعیانِ حق ہیں اور وہ کہ جنہیں نائبینِ رسول کہا جائے‘ جو رسول کے منصبِ تبلیغ کو اپنا کر لوگوں کو خیر اور بھلائی کی دعوت دینے والے ہیں. اور انسانوں ہی میں وہ بھی ہیں کہ جو شر کے داعی ہیں اور برائی کی طرف پکارنے والے ہیں. یہ شیاطین اِنس ہیں. پھر غیر مرئی مخلوقات میں بھی خیر وشر کے طبقات موجود ہیں‘ جن میں سے ایک مخلوق تو وہ ہے جو شر کی طرف بلاتی ہے‘ جو برائی پر انسان کی پیٹھ ٹھونکتی ہے. اگر وہ بدی کا راستہ اختیار کرتا ہے تو یہ بڑھ چڑھ کر اس کی مدد کرتی ہے. یہ جنات شیاطین ہیں جو ابلیسِ لعین کی صُلبی و معنوی ذریّت ہیں. دوسری غیر مرئی مخلوق ملائکہ ہیں‘ وہ نورانی وجود رکھنے والی ہستیاں ہیں. یہ خیر کی طرف بلانے والی اور اہلِ خیر کی ہمت افزائی کرنے والی ہیں اور ان کے لیے تثبیتِ قلبی کا ذریعہ بنتی ہیں. چنانچہ میدانِ بدر میں اور معرکۂ اُحد میں ملائکہ کا نزول قرآنِ حکیم کی نصوصِ قطعیہ سے ثابت ہے. بعض احادیث میں بھی ملائکہ کے نزول کا بڑا صریح اور صاف نقشہ کھینچا گیا ہے. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ارشادفرماتے ہیں: 

مَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِیْ بَیْتٍ مِنْ بُیُوْتِ اللّٰہِ یَتْلُوْنَ کِتَابَ اللّٰہِ وَیَتَدَارَسُوْنَہٗ بَیْنَھُمْ اِلاَّ نَزَلَتْ عَلَیْھِمُ السَّکِیْنَۃُ وَغَشِیَتْھُمُ الرَّحْمَۃُ وَحَفَّتْھُمُ الْمَلَائِکَۃُ وَذَکَرَھُمُ اللّٰہُ فِیْمَنْ عِنْدَہٗ (۱(۱) صحیح مسلم‘ کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار‘ باب فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن والذکر. وسنن الترمذی وسنن ابی داوٗد. ’’کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ کچھ لوگ اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں اللہ کی کتاب کو پڑھنے اور باہم ایک دوسرے کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے جمع ہوں‘ مگر یہ کہ اُن پر اللہ کی سکینت کا نزول ہوتا ہے اور رحمتِ خداوندی انہیں اپنے سائے میں لے لیتی ہے‘اور ملائکہ ان کے گرد گھیرا ڈال لیتے ہیں‘ اور اللہ تعالیٰ ملائکۂ مقربین کی محفل میں اُن کا ذکر کرتا ہے.‘‘

معلوم ہوا کہ ملائکہ کا یہ نزول صرف انتقال کے وقت ہی نہیں ہوتا بلکہ مؤمنینِ صادقین‘ اللہ کے دوستوں اور اس کے چاہنے والوں پر حیاتِ دُنیوی کے دوران بھی مسلسل فرشتے اترتے ہیں. اس دوسرے مفہوم کی تائید یہ الفاظِ قرآنی بھی کر رہے ہیں: نَحۡنُ اَوۡلِیٰٓؤُکُمۡ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ ۚ ’’ہم ہیں تمہارے ساتھی (تمہارے رفیق‘ تمہارے حمایتی‘ تمہارے پشت پناہ) دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت کی زندگی میں بھی‘‘. یہ قول اُسی صورت میں زیادہ قابل فہم ہو گا جبکہ یہ حیاتِ دُنیوی سے متعلق ہو‘ یعنی اُس وقت جبکہ انسان فی الواقع اس کشمکش میں مبتلا ہو اور معرکۂ خیر و شر میں نبرد آزما ہو‘ اور ایسے کڑے وقت میں کوئی اس کی پیٹھ ٹھونکے اور اس کی ہمت افزائی کرے کہ ہم تمہارے ساتھی اور مددگار ہیں‘ تم اپنے آپ کو اس معرکے میں تنہا نہ سمجھو. تواس دوسرے مفہوم کی تائید اِن الفاظِ مبارکہ سے زیادہ واضح ہو کر ہمارے سامنے آتی ہے. خلاصہ یہ ہے کہ یہاں بتایا گیا ہے کہ اگر اللہ کی ربوبیت پر انسان کووثوق حاصل ہو جائے اور اس پر اس کا دل جم جائے تو یہ وہ مقام اور مرتبہ ہے کہ دورانِ حیاتِ دُنیوی بھی ملائکہ کا نزول اس پر پیہم ہوتا رہتا ہے جس سے اسے انبساط حاصل ہوتا ہے‘ اس کے قلب کو تثبیت حاصل ہوتی ہے‘اسے داخلی سکون اور اطمینان میسر آتا ہے اور اس کے قدموں میں جمائو پیدا ہوتا ہے. جیسے کہ سورۃ الانفال میں فرمایاگیا: اِذۡ یُوۡحِیۡ رَبُّکَ اِلَی الۡمَلٰٓئِکَۃِ اَنِّیۡ مَعَکُمۡ فَثَبِّتُوا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ؕ (آیت۱۲میدانِ بدر میں نازل ہونے والے فرشتوں کو اللہ‘کا حکم ہوا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں‘ پس تم اہل ایمان کے قدموں کو جما دو! یعنی ان کے دلوں کے اندر ایک قوت پیدا کر دو.