رہا معاملہ آخرت کا تو اس کے متعلق ارشاد ہوتا ہے : وَ لَکُمۡ فِیۡہَا مَا تَشۡتَہِیۡۤ اَنۡفُسُکُمۡ ’’اوروہاں تو تمہارے لیے ہر وہ چیز (مہیا کر دی گئی) ہے جس کی خواہش تمہارے جی کریں گے‘‘. تمہارے نفوس کا خالق جانتا ہے کہ ان میں کس کس چیز کی اشتہا ہے‘ ان میں کس کس چیز کی طلب مضمر ہے. اور اللہ نے جو تمہارا خالق و مالک ہے‘ تمہارے نفس کے جملہ تقاضوں کی بھرپور تسکین کا اہتمام اُس جنت میں کر دیا ہے کہ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا رہا ہے. اس پر مزید فرمایا: وَ لَکُمۡ فِیۡہَا مَا تَدَّعُوۡنَ ﴿ؕ۳۱﴾ ’’اور جنت میں ہر چیز جس کی تم تمنا کرو گے‘ وہ تمہاری ہو گی‘‘. یعنی وہاں تم جو بھی مانگو گے‘ جو بھی طلب کرو گے حاضر کر دیا جائے گا.

’’اشتہا‘‘ اور ’’طلب‘‘ کے مابین ایک لطیف سا فرق ہے. اشتہا نفسِ انسانی کے وہ تقاضے ہیں جو تمام انسانوں میں مشترک ہیں‘ جنہیں مشتہیاتِ نفس کہا جاتا ہے‘ یعنی ان چیزوں کی خواہش نفس کے اندر موجود ہے. جنت میں ان تقاضوں کی بھرپور تسکین کر دی جائے گی. اس لیے کہ اس دنیا میں بندۂ مؤمن اپنے نفس کی باگیں روک کر رکھتا ہے‘ اللہ کے حکم کے تحت نفس کی مرغوبات سے اپنے آپ کو دُور اور خود کو تھامے رکھتا ہے. ازروئے الفاظِ قرآنی : وَ اَمَّا مَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَ نَہَی النَّفۡسَ عَنِ الۡہَوٰی ﴿ۙ۴۰﴾ (النّٰزعٰت) ’’اور جو اپنے ربّ کے سامنے کھڑا ہونے سے خائف رہا اور اس نے اپنے نفس کو (ناجائز) خواہشات سے روکے رکھا‘‘. تو اس کا ایک منطقی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ آخرت میں ان کے ان مشتہیاتِ نفسانیہ کو بھرپور تسکین فراہم کی جائے جس پر بندۂ مؤمن نے حیاتِ دُنیوی کے دوران قدغنیں بٹھائے رکھی تھیں.اور ’’طلب‘‘ یہ ہے کہ ہر انسان کے فکر اور شعور کی ایک سطح(Level of consciousness) ہے. اس کے اعتبار سے ہر شخص کی تمنا مختلف ہو گی‘ ہر شخص کچھ اور چاہے گا. اس اعتبار سے اس جملے میں ایک امکانی کیفیت رکھ دی گئی کہ: وَ لَکُمۡ فِیۡہَا مَا تَدَّعُوۡنَ ﴿ؕ۳۱﴾ ’’اورجو کچھ بھی تم چاہو گے اس کو جنت میں تمہارے لیے پیش کر دیا جائے گا.‘‘

جنت میں سب سے بڑی بات اللہ تعالیٰ کی میزبانی ہے جس پر اس ذکرِ عالی کو ختم فرمایا گیا‘ یعنی: نُزُلًا مِّنۡ غَفُوۡرٍ رَّحِیۡمٍ ﴿٪۳۲﴾ ’’یہ اُس ہستی کی طرف سے (ابتدائی) مہمان نوازی ہو گی جو غفور بھی ہے ‘رحیم بھی‘‘.اگر خطائیں ہیں تو وہ ان سے درگذر کرنے والا ہے‘ اگر کہیں کوئی قدم پھسل گیا تھا تو اس کو بخش دینے والا اور معاف فرمانے والا ہے‘ تاکہ اجر و ثواب میں کوئی کمی نہ رہ جائے. لہذا یہ اس کی طرف سے مہمان نوازی ہو گی اور تم مہمان ہو گے. یہاں بخشش اور رحم فرمانے کے ذکر میں ایک لطیف اشارہ بھی ہے اور وہ یہ کہ سب کچھ جس کا ذکر کیا جا رہا ہے یہ درحقیقت ’’نُزُل‘‘ ہے‘ یعنی پہلی او ر اوّلین مہمان نوازی.اہل عرب ’’نُزُل‘‘ کا لفظ اس مہمان نوازی کے لیے استعمال کرتے ہیں جو کسی مہمان کے آتے ہی فوراً پیش کی جائے.گویا ’’نَزِیل‘‘ (نزول کرنے والا)یعنی اترنے والا جیسے ہی اپنی سواری سے اترے‘ اس کے سامنے ٹھنڈا یا گرم فوراً پیش کر دیا جائے. یہ ہے نُزُل ‘ اور اس کے بعد اہتمام ہوتا ہے ضیافت کا.تو یہ سب کچھ بھی نُزُل کے حکم میں ہے‘ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ضیافت ہونے والی ہے اس کا توکوئی تصوربھی اس دنیا میں ممکن نہیں. جیسے نبی اکرم نے جنت کی نعمتوں کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اَعْدَدْتُ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ مَا لَا عَیْنٌ رَأَتْ وَلَا اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ (۱’’میں نے اپنے نیک لوگوں کے لیے ایسی نعمتیں تیار کی ہیں کہ جو نہ کسی آنکھ نے کبھی دیکھیں‘ نہ کسی کان نے کبھی سنیں اور نہ کبھی کسی انسان کے دل پر اُن کا کوئی خیال یا احساس وارد ہوا‘‘. وہ تو تمہارے حواس اور تمہارے تخیلات سے ماوراء نعمتیں ہیں. باقی جو کچھ تمہارے احساس و ادراک میں آ سکتا ہے‘ وہ نُزُل اور ابتدائی مہمان نوازی کے طور پر عطا کر دیا جائے گا. مطلب یہ کہ بخشش اور رحمت کے جامِ تسکین و فرحت تو مہمان کو آتے ہی پیش کر دیے جائیں گے‘ پھر ضیافت کا وہ لامتناہی سلسلہ ہوگا جس کا کوئی حساب ہے نہ کوئی حد.