اب آیئے اس آیت مبارکہ کو ایک وحدت کی حیثیت سے دیکھتے ہیں : وَ مَنۡ اَحۡسَنُ قَوۡلًا مِّمَّنۡ دَعَاۤ اِلَی اللّٰہِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ﴿۳۳﴾ اس سے بہتر بات اور کس کی ہو گی جو اللہ کی طرف بلاتا ہو‘جس کی گواہی اس کا عمل دے رہا ہو‘ وہ خود اپنے عمل میں اللہ کا ایک مکمل بندہ نظر آ رہا ہو. اخلاقِ حسنہ کی ایک تصویر اس کے سراپا سے مترشح ہو‘ پھر وہ تواضع اور انکسار کے ساتھ خود اپنے آپ کو مسلمانوں ہی میں سے شمار کر ا رہا ہو. اس کی دعوت کسی جداگانہ فرقے یا جداگانہ مسلک کی طرف نہ ہو‘ بلکہ صرف اللہ کی طرف ہو. یہ ہے تواصی بالحق کی وہ بلند ترین منزل جس پر نبی اکرم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بعد اگر کچھ لوگ فائز نظر آتے ہیں تویہ وہ پاکیزہ انسان ہیں جنہیں اولیاء اللہ کے نام سے موسوم کیاجاتا ہے‘ وہ کبار صوفیہ جنہوں نے اپنے گھر بار تج دیے.سوچئے کہ معین الدین اجمیری رحمہ اللہ علیہ اجمیر میں کوئی تجارت یا کاروبار کرنے آئے تھے؟ ہرگز نہیں‘ بلکہ صرف اسی دعوت کی تڑپ انہیں اجمیر لائی تھی. اسی تڑپ کی بدولت کلمۂ توحید کی صدائیں خود اُن کے وجود کوسرمست اور بے خود کیے ہوئے تھیں‘ اور دوسری کوئی تمنا ان کے دل میں سرے سے باقی نہ رہی تھی. بقول مجذوب رحمہ اللہ علیہ ؎

ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی
اب تو آ جا اب تو خلوت ہو گئی!

ایسے اولیاء اللہ نے اپنے دلوں میں صرف اللہ تعالیٰ کو بسایا تھا. صرف اللہ کی طرف لوگوں کو دعوت دینے کو انہوں نے اپنی کُل سعی و جہد کا مطلوب و مقصود بنایا تھا. اسی کے لیے ان کا جینا اور اسی کے لیے ان کا مرناتھا. خلقِ خدا کی محبت اور اُن پر رحمت و شفقت اور مودّت ان کے پورے وجود میں سرایت (۱) سنن ابی داوٗد‘ کتاب السنۃ‘ باب الدلیل علی زیادۃ الایمان ونقصانہ. وسنن الترمذی‘ کتاب صفۃ القیامۃ‘ باب منہ. کر چکی تھی. اس اعتبار سے وَ مَنۡ اَحۡسَنُ قَوۡلًا مِّمَّنۡ دَعَاۤ اِلَی اللّٰہِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ﴿۳۳﴾ کے اس نقشے پر واقعتا صرف اولیاء اللہ پورے اترتے نظر آتے ہیں.