اس تکلیف دہ کیفیت میں داعی الی اللہ کا مقام کیا ہو گا؟ اس کو ایک عجیب پُرحکمت قاعدہ کلیہ سے شروع کیا گیا جس سے داعی کی تربیت اور تألیف قلب کا انوکھا اور بڑا مؤثر اصول سامنے آتا ہے. فرمایا: وَ لَا تَسۡتَوِی الۡحَسَنَۃُ وَ لَا السَّیِّئَۃُ ؕ ’’اور (دیکھو) نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتیں‘‘. نیکی نیکی ہے اور بدی بدی ہے. نیکی کی اپنی تأثیر ہے اور بدی کی اپنی تأثیر. اب کیسے ممکن ہے کہ یہ دونوں برابر ہو جائیں. ’’ لَا تَسۡتَوِی الۡحَسَنَۃُ وَ لَا السَّیِّئَۃُ ؕ‘‘ میں مبالغے کا ایک انداز حرفِ نفی ’’لَا‘‘ کی تکرار سے بھی پیدا کیا گیا‘ حالانکہ بات یوں بھی پوری ہوجاتی کہ ’’وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَالسَّیِّـئَۃُ‘‘ کہ برابر نہیں ہیں نیکی اور بدی‘ لیکن ’’لَا‘‘ کو مکرر لا کر تاکید کا رنگ پیدا کیا گیا. وَ لَا تَسۡتَوِی الۡحَسَنَۃُ وَ لَا السَّیِّئَۃُ ؕ سے نتیجہ یہ نکالا گیا ہے کہ نیکی کی دعوت کی راہ میں بدی ضرور آڑے آئے گی اور رکاوٹ بنے گی‘ مگر اس کا علاج بڑا دلنشیں تجویز فرمایا: اِدۡفَعۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ’’تم بدی کو اُس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو.‘‘ مخالفتوں کا جواب بڑے ہی احسن اور عمدہ طریق سے دو. ’’اَحْسَنُ‘‘ اَفْعَلُ کے وزن پر تفضیل کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں سب سے زیادہ خوبصورت اور بہترین . یعنی نہایت اعلیٰ اور سب سے عمدہ طور سے مخالفتوں کی مدافعت کرو. اگر تمہیں گالیاں دی جائیں تو جواب میں تمہارے لبوں پر دعا آ جائے. پتھروں کی بوچھاڑ ہو رہی ہو تو تمہاری جانب سے پھولوں کا ہدیہ پیش ہوجائے. تمہارے قتل کے منصوبے بنائے جائیں تو تم شب کی تنہائی میں اپنے ربّ کے حضور مخالفین کی ہدایت کی دعائیں مانگو. یہ ہے بہترین مدافعت اور ’’ اِدۡفَعۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ‘‘ کا اصل مفہوم.

اس طور سے دفاع کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ اس کا جواب دیا گیا ہے کہ: فَاِذَا الَّذِیۡ بَیۡنَکَ وَ بَیۡنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیۡمٌ ﴿۳۴﴾ ’’پھر وہ شخص جس کے اور تمہارے درمیان عداوت (اور دشمنی ) تھی ایسے ہو جائے گا جیسے گرم جوش دوست‘‘. یعنی وہ لوگ جو کل تک تمہارے خون کے پیاسے تھے‘ تمہارے حمایتی‘ مددگار اور جاں نثار بن جائیں گے. سیرت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جن کی وجہ سے غزوۂ اُحد میں ستّر مسلمانوں نے جامِ شہادت نوش کیا‘ جنہوں نے مسلمانوں کے فتح مند ہونے کے بعد یہ دیکھ کر کہ وہ درّہ جہاں محمد عربی نے پچاس تیر اندازوں کو متعین کیا تھا ‘خالی ہو گیا ہے‘ پورے کوہِ اُحد کا چکر کاٹ کر حملہ کیا اور مسلمانوں کی فتح شکست میں تبدیل ہو گئی اور ستّر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خون سے دامنِ اُحد کی زمین رنگین ہو گئی‘ پھر وہی خالد بن ولیدؓ ہیں جو مشرف بہ اسلام ہوئے اور ’’سَیْفٌ مِّنْ سُیُوْفِ اللّٰہِ‘‘ کا لقب پایا اور محمد عربی کے سچے جاں نثار بنے. اب جہاں حضور کا پسینہ گرے وہاں اپنا خون گرانے کو موجب سعادت سمجھنے لگے.

یہ طرزِ عمل اور ’’دفاعِ احسن‘‘ صبر کی بلند ترین منزل ہے. اگرچہ صبر یہ بھی ہے کہ کوئی گالی دے اور انسان خاموش رہے‘ کوئی پتھر مارے اور انسان اس کو چپ چاپ جھیل لے ‘لیکن یہ صبر کی ابتدائی منزل ہے. جبکہ یہاں جن مقامات ِ عالیہ اور جن بلندمراتبِ صبر کا بیان ہوا ہے ان کے اعتبار سے صبر کی اعلیٰ ترین منزل بالکل مختلف اور جداگانہ ہے. اور وہ یہ ہے کہ گالیوں کے جواب میں دعائیں دی جائیں ‘ پتھروں کے جواب میں لوگوں کو پھول پیش کیے جائیں اور جو لوگ تمہارے قتل کے منصوبے بنارہے ہوں پروردگار کے حضور میں ان کی ہدایت کے لیے دعائیں کی جائیں.

حقیقت یہ ہے کہ اس اعتبار سے بھی اگر دیکھا جائے تو نبی اکرم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بعد پوری تاریخِ اُمتِ مسلمہ میں صبر کے کڑے معیار پر بھی کچھ لوگ پورے اترتے دکھائی دیتے ہیں تو وہ وہی لوگ ہیں جن کا ذکر کیاجا چکا ہے‘ یعنی صوفیہ کبار اور اولیاء اللہ. یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے بدخواہوں کو دعائیں دیں‘ جن کے سینے انتہائی کشادہ تھے‘ جن کے دلوں میں لوگوں نے اپنے لیے شفقت و مودّت اور محبت و رحمت کا دریا موجزن پایا. ان کی انہی کیفیات اور طرزِ عمل کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بابا فرید رحمہ اللہ علیہ کے ہاتھ پر نوے ہزار لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے. اسی طرح حضرت معین الدین اجمیری رحمہ اللہ علیہ کے ذریعے لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے اسلام قبول کیا. سرزمینِ ہند میں اسلام پھیلا ہے تو انہی لوگوں کے طفیل‘ ورنہ بادشاہوں اور ہمارے حکمرانوں کا جو طرزِ عمل رہا ہے وہ اسلام سے برگشتہ کرنے میں تو ممد ہو سکتا تھا‘ اسلام کی طرف راغب کرنے میں نہیں‘ الاّماشاءَاللّٰہ! چنانچہ چند شخصیتوں کے استثناء کے ساتھ پوری ہزار سالہ تاریخ میں عظیم اکثریت کا حال یہی رہا ہے کہ وہ لوگوں کو اسلام سے دُور کرنے کے موجب تو بنے ہیں ‘مگر اسلام کی طرف دعوت دینے میں اور اس کی طرف راغب کرنے میں ان کا کوئی حصہ نہیں. دعوت کا یہ سارا کام انہی لوگوں کے طفیل انجام پایا ہے جو نبی اکرم کے نقشِ قدم پر چلے. انہوں نے کبھی دُنیوی جاہ و حشمت کی حرص نہیں کی‘ بلکہ ان کی زندگیوں میں ایک ہی آرزو رہ گئی تھی اور وہ یہ تھی کہ خلقِ خدا کی ہدایت کا سامان کیا جائے. گویا یہ لوگ نوعِ انسانی کے لیے مجسم خیر خواہی تھے.