نبی اکرمﷺ کی سیرت کا بھی ایک نقشہ ہمارے سامنے آتا ہے جو کہ یومِ طائف سے متعلق ہے. ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے رسول اللہﷺ سے یومِ اُحد کے حوالے سے سوال کیا کہ کیا آپ پر یومِ اُحد سے سخت دن بھی کوئی گزرا ہے؟ آپؐ نے فرمایا:’’ہاں‘ طائف کا دن مجھ پر کہیں زیادہ سخت تھا‘‘. اس دن معاملہ یہ سامنے آتا ہے کہ طائف کی گلیوں میں آپؐ کا جسم مبارک لہولہان ہوا‘ اوباش اور بدمعاش لوگوں نے آپؐ پر پتھراؤ کیا‘ فقرے چست کیے گئے‘ آپؐ کا مذاق اڑا یا گیا اور بالکل وہ صورت ہو گئی کہ جو ہمارے ہاں کبھی گلیوں میں کسی دیوانے کے ساتھ ہوتی ہے کہ بچے تالیاں پیٹتے ہوئے اور کنکریاں مارتے ہوئے اس کے گرد جمع ہو جاتے ہیں. بعینہٖ یہ نقشہ تھا محبوبِ ربّ العالمین اور سیّد الاوّلین والآخرینﷺ کا. ایک دفعہ آپؐ زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے نقاہت کے باعث بیٹھ گئے تو دواوباش آدمی آگے آئے‘ ایک نے ایک طرف بغل میں ہاتھ ڈالا اور دوسرے نے دوسری طرف اور اٹھا کرکھڑا کر دیا کہ چلو. اس قدر تکلیف دہ صورت حال سے رسولِ رحمتﷺ کو طائف کی گلیوں میں سابقہ پڑا ہے. لیکن جب آپؐ وہاں سے واپس آئے تو آپؐ نے انتہائی دلدوز اور جگر کو چیر دینے والی دعا مانگی:
اَللّٰھُمَّ اِلَیْکَ اَشْکُوْ ضُعْفَ قُوَّتِیْ وَقِلَّۃَ حِیْلَتِیْ وَھَوَانِیْ عَلَی النَّاسِ… (۱)
’’اے اللہ !میں تیری ہی جناب میں اپنی قوت کی کمی اور وسائل کی کمی اور لوگوں میں اپنی ذلت ورسوائی کا شکوہ لے کر آیا ہوں…‘‘
اُس وقت ملک الجبال حاضر ہوا اور کہا :’’اللہ تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے‘ اوراگر آپؐ فرمائیں تو میں ان دونوں پہاڑوں کو آپس میں ٹکرا دوں جن کے مابین طائف کی یہ بستی آباد ہے‘ اور یہ لوگ جنہوں نے آپؐ ‘ کو ستایا ہے ‘پس کر سرمہ بن جائیں. ‘‘لیکن رسولِ رحمتﷺ کی رحمت لّلعالمینی پر قربان جایئے (۱) سیرت ابن ہشام‘ بحوالہ تاریخ طبری ‘ جلد۲‘ ص ۳۴۵. کہ فرمایا:’’نہیں‘ کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ ان کی آئندہ نسلوں کو ہدایت کی توفیق عطا فرما دے.‘‘ ایک نقشہ یہ ہے‘ لیکن ایک نقشہ وہ بھی ہے جو میدانِ اُحد میں سامنے آتا ہے کہ جب آپؐ پر غشی طاری ہوئی‘ آپ کے خود پروہ تلوار پڑی کہ خود کو چیرتے ہوئے آپؐ ‘ کی پیشانی کی ہڈی میں سے گذر گئی اور اس نے آپؐ کے دو دانت بھی شہید کر دیے. اُس وقت نبی اکرمﷺ کی زبان مبارک سے ایسے الفاظ نکل گئے کہ : کَیْفَ یُفْلِحُ قَوْمٌ خَضَبُوْا وَجْہَ نَبِیِّھِمْ بِالدَّمِ (۱) ’’وہ قوم کیسے فلاح پائے گی جس نے اپنے نبی(ﷺ ) کے چہرے کو خون سے رنگ دیا!‘‘ تو فوراً وحی ٔ الٰہی نازل ہوئی اور فرمایا گیا:
لَیۡسَ لَکَ مِنَ الۡاَمۡرِ شَیۡءٌ اَوۡ یَتُوۡبَ عَلَیۡہِمۡ اَوۡ یُعَذِّبَہُمۡ (آل عمران:۱۲۸)
’’(اے نبیؐ !) آپؐ کے ہاتھ میں کوئی اختیار نہیں (اختیارِ مطلق اللہ کے ہاتھ میں ہے) وہ چاہے گا تو اپنی نظرِ کرم اُن کی طرف پھیر دے گا (انہیں معاف کر دے گا اور ہدایت اور ایمان لانے کی توفیق عطا فرمائے گا) اور چاہے گا تو اُن کو عذاب دے گا.‘‘
اس واقعہ میں ایک رہنمائی یہ ہے کہ ہو سکتا ہے کہ بڑے سے بڑے انسان کی زبان سے بھی کسی وقت کوئی ایسا جملہ نکل جائے جو اُس کے مقامِ اعلیٰ کے شایانِ شان نہ ہو. اس لیے یہ تعلیم فرمائی کہ: وَ اِمَّا یَنۡزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیۡطٰنِ نَزۡغٌ فَاسۡتَعِذۡ بِاللّٰہِ ؕ ’’اوراگر کبھی شیطان کی طرف سے تمہیں کوئی چوک لگ ہی جائے تو فوراً اللہ کی پناہ طلب کرو‘‘. اور اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ ﴿۳۶﴾ میں ایک اُمید دلائی گئی کہ ’’اللہ تعالیٰ سب کچھ سننے والا‘ سب کچھ جاننے والا ہے‘‘.وہ درگذر فرمانے والا بھی ہے. اگر کسی وقت جذبات کی شدت میں ایسا کوئی جملہ زبان سے نکل بھی جائے تو اللہ تعالیٰ معاف فرما دینے والا اور رحم فرمانے والا ہے. دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس مقامِ بلند تک پہنچنے کی ایک سچی آرزو دل میں پالنے کی توفیق عطا فرمائے. آمین!
وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ (۱) مسند احمد. وسنن ابن ماجہ‘ کتاب الفتن‘ باب الصبر علی البلاء.