دوسری بات اس سورۂ مبارکہ کی عظمت کے بارے میں ہے. اس ضمن میں ایک تو خود اللہ تعالیٰ کا اپنا فرمان ہے. چنانچہ چودہویں پارے میں سورۃ الحجر میں یہ آیت وارد ہوئی ہے:
وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنٰکَ سَبۡعًا مِّنَ الۡمَثَانِیۡ وَ الۡقُرۡاٰنَ الۡعَظِیۡمَ ﴿۸۷﴾ 
’’اور(اے نبیؐ !) بے شک ہم نے آپؐ ‘کو عطا فرمائی ہیں سات دہرائی جانے والیاں (یعنی وہ سات آیات جو بار بار پڑھی جاتی ہیں‘ نماز کی ہر رکعت میں ان کا اعادہ ہوتا ہے) اور قرآنِ عظیم (عطا فرمایا)‘‘.

اس آیت کے بارے میں مفسرین کا تقریباً اجماع ہے کہ ’’سَبۡعًا مِّنَ الۡمَثَانِیۡ ‘‘ سے مراد بھی سورۃ الفاتحہ کی سات آیات ہیں اور ’’الۡقُرۡاٰنَ الۡعَظِیۡم ‘‘ بھی اسی سورۂ مبارکہ کو قرار دیا گیا ہے. گویا اس سورۂ مبارکہ کی عظمت یہ ہے کہ یہ بجائے خود ایک مکمل قرآن ہے‘ اور نہ صرف قرآن بلکہ ’’قرآنِ عظیم‘‘ ہے. سورۃ الحجر کا وہ مقام جس میں یہ آیۂ مبارکہ وارد ہوئی ہے‘ وہ ہے جہاں اللہ تعالیٰ نبی اکرم کو صبر کی تلقین فرما رہے ہیں اور ساتھ ہی اپنا یہ احسان اور فضل بھی بیان فرما رہے ہیں کہ اے نبیؐ ! ہم نے آپ کو اتنی بڑی نعمت عطا فرمائی ہے جتنی بڑی نعمت کسی اور کو نہیں دی‘ اور وہ ہے سورۃ الفاتحہ.

اس سورۂ مبارکہ کی عظمت ایک حدیثِ رسولؐ سے مزید نکھر کر ہمارے سامنے آتی ہے. صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کے بارے میں نبی اکرم نے فرمایا: اَقْرَؤُ ہُمْ اُبَیُّ بْنُ کَعْبٍ ’’صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں قرآن کے سب سے بڑے قاری (عالم) اُبی بن کعب ہیں‘‘. ان سے ایک بار خود نبی اکرم نے سوال کیا کہ ’’اے اُبی! کیا میں تمہیں وہ سورت تلقین کروں جس کی مثل نہ تورات میں نازل ہوئی‘ نہ انجیل میں ‘ نہ زبور میں اور نہ ہی قرآن مجید میں؟‘‘ جواب میں حضرت اُبی بن کعب ؓ نے سراپا اشتیاق بن کر عرض کیا :’’حضورضرور تلقین فرمائیے‘‘. اس پر نبی اکرم نے دوسرا سوال کیا:’’تم نماز میں کیا پڑھتے ہو؟‘‘ حضرت اُبیؓ نے جواب میں سورۃ الفاتحہ کی تلاوت شروع کر دی تو نبی اکرم نے فرمایا :’’اُس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے‘ یہی ہے وہ سورت جس کی مثل نہ تورات میں نازل ہوئی ‘نہ انجیل میں‘نہ زبور میں اور نہ ہی قرآن میں اس کی مثل و نظیر موجود ہے ‘اور یہی سَبْعٌ مِّنَ الْمَثَانِیْ اورقرآن عظیم ہے جو مجھے عطا کیا گیا ہے!‘‘ (۱