تیسری بات اس سورۂ مبارکہ کے ناموں سے متعلق ہے. اس کا سب سے زیادہ مشہور و معروف اور زبان زدِ خاص و عام نام ’’الفاتحۃ‘‘ ہے جو ’’ف ت ح‘‘ مادہ سے بنا ہے. ’’فَتَحَ یَفْتَحُ‘‘ کے معنی ہیں کسی چیز کو کھولنا. لہذا ’’الفاتحہ‘‘ کے معنی ہوئے ’’قرآن مجید کی افتتاحی سورت‘‘. یہ نام گویا اس اعتبار سے ہے کہ یہ مصحف کی پہلی سورت ہے. سب جانتے ہیں کہ عربوں کا یہ خاص مزاج ہے کہ جس چیز سے (۱) سنن الترمذی‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب ما جاء فی فضل فاتحۃ الکتاب. اس مضمون کی متعدد احادیث صحیح بخاری میں بھی موجود ہیں. دیکھئے : صحیح البخاری‘کتاب تفسیر القرآن‘ باب قولہ وَلَقَدْ اٰتَیْنٰکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَالْقُرْآنَ الْعَظِیْمَ اور دیگر ابواب. عن ابی سعید بن المُعلّٰی. انہیں خصوصی محبت ہوتی ہے وہ اس کے نام کثرت سے رکھتے ہیں. چنانچہ اس سورۂ مبارکہ کے بھی بہت سے نام ملیں گے. اس کی عظمت کے اعتبار سے اسے ’’اُمّ القرآن‘‘ اور ’’اساس القرآن‘‘ بھی کہا گیا ہے. گویا یہ سورۂ مبارکہ قرآن مجید کے لیے جڑ‘ بنیاد اور اساس کے مرتبے اور مقام کی حامل سورت ہے. سورۂ لقمان کے دوسرے رکوع کے درس میں بیان کیاگیا تھا کہ قرآن حکیم کی اپنی ایک حکمت اور اس کا اپنا ایک جداگانہ فلسفہ ہے. چنانچہ حکمت ِ قرآنی کے لبّ لباب‘ اس کے جوہر‘ اس کے خلاصے اور قرآن حکیم کے طرزِ استدلال کے اعتبار سے بھی اس سورۂ مبارکہ کو اساسی اہمیت حاصل ہے. اس سورۂ مبارکہ کو ’’الکافیہ‘‘ کا نام بھی دیا گیا ہے ‘یعنی یہ انسان کی فکری رہنمائی کے لیے کفایت کرنے والی سورت ہے. اس سورۂ مبارکہ کو ’’الشافیہ‘‘ کے نام سے بھی موسوم کیا گیا ہے‘ یعنی اس میں شفاء ہے.

یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے پورے قرآن مجید کو بھی 
’’شفاء‘‘ قرار دیا ہے. چنانچہ سورۂ یونس کی آیت ۵۷ میں فرمایا گیا: 
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ قَدۡ جَآءَتۡکُمۡ مَّوۡعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوۡرِ ۬ۙ وَ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۵۷﴾ 
’’اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے نصیحت آ گئی ہے‘ اور شفاء بھی دلوں کے امراض کے لیے ‘ اور رہنمائی اور رحمت ان کے لیے جو اِس پر ایمان لے آئیں‘‘.

سورۂ بنی اسرائیل کی آیت ۸۲ میں فرمایا گیا: 

وَ نُنَزِّلُ مِنَ الۡقُرۡاٰنِ مَا ہُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۙ 
’’اور ہم اتارتے ہیں قرآن میں سے جو شفاء ہے اور رحمت ایمان والوں کے واسطے‘‘.

یہاںجس شفاء کا تذکرہ ہے اس کے متعلق یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس سے ذہنی و فکری شفاء اور دل کے روگ جیسے حسد‘ کینہ‘ بغض‘ تکبر وغیرہ باطنی امراض مراد ہیں. گویا انسان کی سوچ کو درست کرنے والی کتاب‘ کتابِ الٰہی ہے اور باطن کے امراض کا مداوابھی قرآن حکیم ہے. اس موقع پر ساتھ ہی یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ انسان کے جسم اور ذہن میں بہت گہرا ربط ہے. ذہن و فکر مریض ہوں تو جسم پر بھی اس کے آثار ظاہر ہوں گے. قارئین کے علم میں ہوگا کہ آج کل کے دَور میں امراضِ ذہنی ونفسیاتی کا بڑا چرچا ہے. یہ دراصل فسادِ فکری کا نتیجہ ہوتے ہیں. لہذا اگر فکر صحیح ہوگی‘ سوچ درست ہوگی تو لازماً انسان کو جسمانی تندرستی بھی حاصل ہوگی. ان اعتبارات سے پورا قرآن مجید بھی شفاء ہے اور یہ سورۂ مبارکہ بھی‘ کیونکہ یہ پورے قرآن کے خلاصے کی حامل سورت ہے. اس میں مؤمنوں کے لیے ہدایت کے ساتھ ذہنی ‘ فکری اور قلبی شفاء بھی موجود ہے. مزید برآں یہ کلام اللہ ہے‘ اس پر کامل و اکمل یقین رکھنے والوں کے لیے اس میں جسمانی طور پر شفاء ہونا بھی مستبعد نہیں. سورۃ الفاتحہ کے جسمانی شفاء ہونے کا احادیثِ صحیحہ میں ذکر ملتا ہے.