چوتھی بات اس سورۂ مبارکہ کے اسلوب سے متعلق ہے. اگرچہ یہ کلامِ الٰہی ہے لیکن اس کا اسلوب دعائیہ ہے. گویا بندوں کو تلقین کی جا رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونا چاہو تو اس طور سے ہو. مزید گہرائی میں اتر کر غور کریں تو درحقیقت انسان کی فطرتِ سلیمہ کی ترجمانی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ کے جامع الفاظ کی شکل میں فرمائی ہے. گویا یہ سورۂ مبارکہ ترانۂ شکر و سپاس اور حمد و ثناء بھی ہے‘ اس میں اللہ کی ربوبیت ِ کاملہ اور اس کے مالک ِ ارض و سماء ہونے کا اقرار بھی ہے‘ اس کے رحمن اور رحیم ہونے کا یقین بھی ہے اور اس کے جزا و سزا کے دن کا مالک و مختارِکُل‘ نیز اس کے عادل و منصف اور قادرِمطلق ہونے کا ایقان بھی ہے. پھر اس میں صرف اسی کی بندگی و پرستش اور صرف اسی سے مدد و اعانت طلب کرنے کا قول و قرار اور عہد و میثاق بھی ہے. مزید برآں اس میں اسی سے صراطِ مستقیم پر گامزن کرنے اور منزل تک پہنچانے کی توفیق طلبی بھی ہے. چنانچہ اس میں اللہ تعالیٰ سے ان لوگوں کی راہ پر چلانے کی دعا بھی ہے جو نہ مغضوب ہوئے اور نہ گمراہ‘ بلکہ ان کا شمار اللہ تبارک و تعالیٰ کے محبوب اور انعام یافتہ بندوں میں ہوا.
گویا اس سورۂ مبارکہ کو اس طرح قرآن مجید کے لیے ایک دیباچہ بنادیا گیا اور بقیہ پورے قرآن مجید سے اس کا تعلق یہ ہوا کہ یہ تو ہے انسان کی فطرتِ سلیمہ کی پکار‘ اور اس کا جواب وہ ہے جو قرآن آگے پیش کر رہا ہے. انسان کی فطرت میں جس ہدایت اور سیدھے راستے کی طلب ہے وہ ’’اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ‘‘ کی دعا کی شکل میں سامنے آتی ہے. اس طلب اور دعائے ہدایت کا جواب ہے یہ پورا قرآن جو محمد رسول اللہﷺ پر نازل ہوا. یہی وجہ ہے کہ سورۃ البقرۃ کا آغاز ان الفاظِ مبارکہ سے ہوتا ہے: الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ ۚۖۛ فِیۡہِ ۚۛ ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ ’’ا ل م. یہ کتابِ الٰہی ہے‘ اس میں کوئی شک و شبہ کی بات نہیں‘ یہ خدا ترس لوگوں کے لیے ہدایت بن کر نازل ہوئی ہے‘‘. اس طرح ایک طرف یہ سورۂ مبارکہ فلسفہ و حکمت کے اعتبار سے فطرتِ انسانی کی ترجمانی پر مشتمل ہے اور دوسری طرف قرآن مجید کے ساتھ اس کا ربط و تعلق تقریباً وہی ہے جو کسی کتاب کے مقدمے یا دیباچے کا اصل کتاب کے ساتھ ہوتا ہے.