اب آگے باری تعالیٰ کی چند مزید صفاتِ کمال کا ذکر ہو رہا ہے . پہلی بات سامنے آتی ہے: ’’رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ‘‘ جو تمام جہانوں کا مالک اور پروردگار ہے. ’’ربّ‘‘کے لفظ میں یہ دونوں مفہوم شامل ہیں. عرب گھر کے مالک کو رَبُّ الْبَیْتِ یا رَبُّ الدَّار کہتے ہیں. قرآن مجید میں ربّ کا لفظ مالک کے معنوں میں متعدد مقامات پراستعمال ہوا ہے. جیسے سورۃ القریش میں آتا ہے : فَلۡیَعۡبُدُوۡا رَبَّ ہٰذَا الۡبَیۡتِ ۙ﴿۳﴾ ’’پس عبادت کرو اِس گھر (حرم شریف) کے مالک کی‘‘. پھر ربّ کا مفہوم پرورش کرنا‘ ترقی اور نشوونما دینا بھی ہے. ایک مالک ایسانااہل اور ناکارہ بھی ہو سکتا ہے جو اپنی ملکیت کو لے کر بیٹھ رہے‘ اس کی ترقی اور نشوونما کی اسے کوئی خاص پروا نہ ہو ‘اور ایک مالک ایسا قابل و قادر ہوتا ہے کہ اس کی ملکیت میں جو چیزیں ہیں وہ ان میں سے ہر چیز کو اُس کی استعدادات کے مطابق پروان چڑھائے اور ہر شے کو اُس کے نقطۂ کمال تک پہنچانے کا سامان فراہم کرے ! پس اللہ کی ذاتِ گرامی وہ ہے جو ہر شے کے نقطۂ عروج و کمال تک پہنچنے کے جملہ مقتضیات کو فراہم کرنے اور بہم پہنچانے والی ہے. ’’عَالَمِیْنَ‘‘ عالم کی جمع ہے. لہذا یہاں ربّ العالمین کا مفہوم ہوگا سارے جہانوں کی مخلوقات کا مالک اور پروردگاراللہ ہی ہے‘ آقا بھی وہی ہے اور پرورش کنندہ بھی وہی ہے.