اگلی آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ایک اور وصف ’’الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ‘‘ کے الفاظ میں بیان ہوا ہے. یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے دو بڑے عظیم صفاتی نام ہیں. دونوں کا مادہ رحمت ہے. اسی رحمت (۱) سنن الترمذی‘ کتاب الدعوات‘ باب ما یقول اذا فرغ من الطعام. وسنن ابی داوٗد‘ کتاب الاطعمۃ‘ باب ما یقول الرجل اذا طعم. سے ’’رحمن‘‘ اور اسی سے ’’رحیم‘ ‘ بنا. ان دونوں کے فرق کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے. عربی زبان میں ’’فَعْلَانُ‘‘ کے وزن پر جب کوئی صفت آتی ہے تو اس میں ایسا نقشہ سامنے آتا ہے جیسے کسی شے میں جوش و خروش اور طوفانی اورہیجانی کیفیت ہو. خود ہیجان بھیفَعْلَان کے وزن ہی پر ہے.تشبیہہ کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ جیسے سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہو‘ اس میں زبردست ہلچل ہو. کسی صفت کی یہ کیفیت ہو تو عربی میں اسے اکثر فعلان کے وزن پر لایا جاتا ہے. مثلاً جب کہا جائے ’’اَنَا عَطْشَانُ‘‘ تو مفہوم ہوگا ’’میں شدید پیاسا ہوں ‘یا پیاس سے مرا جا رہا ہوں‘‘.’’اَنَا جَوْعَانُ‘‘ کامفہوم ہوگا ’’میں بہت بھوکا ہوں ‘یابھوک سے میری جان نکل رہی ہے‘‘. ’’ہُوَ غَضْبَانُ‘‘ کا مطلب ہے ’’وہ نہایت غصے اور طیش میں ہے‘‘. ان امور کو سامنے رکھئے اور اب ’’رَحْمٰن ‘‘ کے لفظ کو سمجھئے کہ اس کے معنی کیا ہوں گے ! رحمن وہ ہستی ہے جس کی رحمت ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کے مانند ہے. جس کی رحمت میں انتہائی جوش و خروش ہے.
البتہ ’’فَعِیْل‘‘ کے وزن پر جب کوئی صفت آتی ہے تو اس صفت میں اس کے دوام و استمرار کا مفہوم شامل ہوتا ہے.یعنی یہ وقتی جوش و خروش نہیں ہے بلکہ اس میں پائیداری و استواری اور مستقل مزاجی ہے. گویا اللہ کی رحمت کی شان یہ بھی ہے کہ اس میں دوام اور استمرار ہے ‘جیسے ایک دریا ہمواری کے ساتھ مسلسل بہہ رہا ہے‘ اس میں ہیجان نہیں ہے‘ سمندر کی طرح کا جوش و خروش نہیں ہے‘ لیکن بہاؤ کا ایک خاموش اور پُر سکون تسلسل ہے. پس اللہ تعالیٰ کی یہ دونوں شانیں ہیں جو بیک وقت موجود ہیں. یعنی وہ بیک وقت رحمن بھی ہے‘ رحیم بھی ہے. اس بات کو ایک تشبیہہ سے مزید سمجھا جا سکتا ہے. فرض کیجیے کہ سڑک پر کوئی حادثہ ہو گیا ہے جس میں کئی افراد ہلاک ہو گئے ہیں اور فرض کیجیے کہ اس حادثے میں ایک ایسی عورت بھی ہلاک ہو گئی جس کی گود میں ایک دودھ پیتا بچہ بھی تھا. وہ بچہ زندہ ہے اور اپنی مُردہ ماں کی چھاتی سے چمٹا ہوا ہے. یہ کیفیت دیکھ کر کون انسان ہوگا جس کے دل میں رقت پیدا نہ ہو اورشفقت و رحمت کے جذبات موجزن نہ ہو جائیں! ہر انسان یہ چاہے گا کہ یہ بچہ جو بے سہارا ہو گیا ہے‘ میں اس کی کفالت اپنے ذمہ لے لوں‘ اس کی پرورش میں کروں.لیکن اگر وہ اس جوش میں یہ ذمہ داری لے بیٹھا‘ تو ہمارامشاہدہ یہ ہے کہ اکثر و بیشتر یہ وقتی جوش بہت جلد ٹھنڈا ہو جاتا ہے. ہو سکتا ہے کہ کچھ ہی دنوں کے بعد اسے محسوس ہو کہ میں یہ کیا غلطی کربیٹھا! میرے اپنے بچے ہیں‘ میری بے شمار ذمہ داریاں پہلے سے موجود تھیں‘اب اِن پر مستزاد یہ بوجھ میں نے خواہ مخواہ اپنے سر لے لیا. گویا وقتی طور پر وہ ہیجانی کیفیت جو اُس کے دل میں پیدا ہوئی تھی جس کے زیر اثر اس نے بے سہارا بچے کی کفالت کی ذمہ داری لے لی تھی‘اس میں دوام و استمرار نہیں تھا. لیکن اللہ تعالیٰ کی رحمت کی یہ دونوں شانیں بیک وقت ہیں. وہ بیک وقت رحمن بھی ہے اور رحیم بھی ہے. یہی وجہ ہے کہ ’’الرَّحۡمٰنِ‘‘ اور ’’الرَّحِیۡمِ‘‘ کے مابین حرفِ عطف ’’و‘‘ نہیں آیا‘ بلکہ یہاں فرمایا: ’’الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ‘‘ یعنی اس میں یہ دونوں صفات‘ یہ دونوں شانیں بیک وقت بتمام و کمال موجودہیں.