پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر
مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر
ایسے لوگوں کے لیے ضرورت ہے کہ انہیں خوف بھی دلایا جائے‘ اُن کے دلوںمیں بازپُرس کا احساس بھی اُجاگر کیا جائے‘ ان کو عذابِ الٰہی سے خبردار بھی کیا جائے اور برے کاموں کی سخت سزا سے ڈرایا بھی جائے. چنانچہ قرآن حکیم میں دونوں چیزیں یعنی اللہ تعالیٰ کے غفور‘ ستار‘ رحیم‘ رحمن‘روؤف‘ وَدود ہونے کی شانیں بھی ملیں گی اور قہار‘ ذوانتقام‘ سریع الحساب ہونے کا ذکر بھی ملے گا.
ابتدا میں نبی اکرمﷺ کو جو احکام ملے ہیں ان میں آپﷺ کو اس طرح مخاطب کیا گیا ہے : یٰۤاَیُّہَا الۡمُدَّثِّرُ ۙ﴿۱﴾قُمۡ فَاَنۡذِرۡ ۪ۙ﴿۲﴾ (المدثر) ’’اے لحاف میں لپٹ کر لیٹنے والے (ﷺ )! کھڑے ہو جاؤ (کمر بستہ ہو جاؤ) اور لوگوں کو خبردار کرو‘‘. ایک اور جگہ فرمایا: وَ اَنۡذِرۡ عَشِیۡرَتَکَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ ﴿۲۱۴﴾ۙ(الشعراء) ’’اور (اے نبیؐ !) اپنے رشتہ داروں اور قریبی اعزّہ کو خبردار کیجیے‘‘. تو ابتدا میں انذار کا پہلو ضرورغالب رہا لیکن اصولاً قرآن مجید جس اللہ پر ایمان کی دعوت دیتا ہے وہ ‘معاذ اللہ‘ کوئی خوفناک ہستی نہیں‘ بلکہ محبت کرنے والی‘ اورمحبت ہی نہیں پرستش کرنے کے لائق ہستی ہے‘ اس سے محبت کرو‘ اسے چاہو‘ اس سے لو لگاؤ. جیسے کہ سورۃ البقرۃ میں ارشاد ہوا : وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ؕ (آیت ۱۶۵) ’’ اورجو واقعتا صاحب ایمان ہیں وہ تو سب سے زیادہ اورشدید محبت اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتے ہیں‘‘.اور اس محبت کی اساسات ہیں جو سورۃ الفاتحہ کی ابتدائی دو آیات میں ہمارے سامنے آئیں کہ اللہ تعالیٰ تمام محاسن و کمالات کا جامع ہے‘ منبع و سرچشمہ ہے‘ وہ کائنات کا ربّ ہے‘ مالک ہے‘ پروردگار ہے‘ پالن ہار ہے‘ وہ الرحمن ہے‘ الرحیم ہے. اس کی رحمت ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کے مانند بھی ہے اور استمرار اور دوام کے ساتھ بہنے والے دریا کے مانند بھی ہے.