اب ذرا ا س بات پر غور کیجیے کہ یہ سورۃ الفاتحہ یعنی قرآن مجید کی بالکل ابتدائی سورت کی پہلی دو آیات ہیں‘ اور ان میں اللہ تعالیٰ کا جو تعارف ہمارے سامنے آتا ہے اس میں کون سی چیز غالب ہے؟وہ ہے اُس کی ذات کا لائق حمد و ثناء اور قابلِ شکر و امتنان ہونا اور اس کی ربوبیت ِ عامّہ اور اس کی رحمت ِ تامّہ ! یہ ہے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ابتدائی تعارف جو قرآن نوعِ انسانی سے کراتا ہے. یہاں اس اعتراض کو بھی پیش نظررکھ لیجیے جو بعض مستشرقین اور ان کی تقلید میں اکثر آریہ سماجیوں نے قرآن مجید اور اسلام پر کیا ہے‘ پھر اس اعتراض کے صحیح جواب کو بھی جان لیجیے. وہ کہتے ہیں کہ قرآن میں اللہ کے خوف پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے اور اسی کو زیادہ نمایاں کیا گیا ہے. چنانچہ قرآن مجید میں خوف‘ تقویٰ‘ میدانِ حشر کے مصائب‘ جہنم کے عذاب اور اس کی روح فرسا تفصیلات کی بہت تکرارہے‘ جبکہ ہمارے مذہب میں اللہ کی محبت اور اس کے شفیق و رحیم ہونے پر بہت زور ہے. یہ درحقیقت قرآن مجید پر بہتان ہے‘اس لیے کہ قرآن مجید بالکل افتتاحی سورت میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا جو ابتدائی تعارف کرا رہا ہے وہ‘ معاذ اللہ‘ ثم معاذ اللہ‘ کسی خوفناک ہستی کا تعارف نہیں ہے ‘بلکہ ایک پروردگار اور پالن ہار‘ ایک سراپا رحمت و شفقت ذات‘ ایک شفیق اور ودود ہستی اور ایک رحمن و رحیم آقا کا تعارف کرا رہا ہے‘ جو تمام صفاتِ کمال سے متصف ہے اور جس کی ذاتِ اقدس میں تمام محاسن موجود ہیں. پس معلوم ہوا کہ اس کا اصل اور حقیقی تعارف تو یہ ہے جو سورۃ الفاتحہ کی ان دو آیات میں بیان ہوا. البتہ یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ سب لوگ محبت کے رمز آشنا اور قدر شناس نہیں ہوتے‘ اکثر لوگ پست ذہنی سطح ہی کے حامل ہوتے ہیں‘ جن کے بارے میں علامہ اقبال مرحوم نے کہا ہے : ؎
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر
ایسے لوگوں کے لیے ضرورت ہے کہ انہیں خوف بھی دلایا جائے‘ اُن کے دلوںمیں بازپُرس کا احساس بھی اُجاگر کیا جائے‘ ان کو عذابِ الٰہی سے خبردار بھی کیا جائے اور برے کاموں کی سخت سزا سے ڈرایا بھی جائے. چنانچہ قرآن حکیم میں دونوں چیزیں یعنی اللہ تعالیٰ کے غفور‘ ستار‘ رحیم‘ رحمن‘روؤف‘ وَدود ہونے کی شانیں بھی ملیں گی اور قہار‘ ذوانتقام‘ سریع الحساب ہونے کا ذکر بھی ملے گا.
ابتدا میں نبی اکرمﷺ کو جو احکام ملے ہیں ان میں آپﷺ کو اس طرح مخاطب کیا گیا ہے : یٰۤاَیُّہَا الۡمُدَّثِّرُ ۙ﴿۱﴾قُمۡ فَاَنۡذِرۡ ۪ۙ﴿۲﴾ (المدثر) ’’اے لحاف میں لپٹ کر لیٹنے والے (ﷺ )! کھڑے ہو جاؤ (کمر بستہ ہو جاؤ) اور لوگوں کو خبردار کرو‘‘. ایک اور جگہ فرمایا: وَ اَنۡذِرۡ عَشِیۡرَتَکَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ ﴿۲۱۴﴾ۙ(الشعراء) ’’اور (اے نبیؐ !) اپنے رشتہ داروں اور قریبی اعزّہ کو خبردار کیجیے‘‘. تو ابتدا میں انذار کا پہلو ضرورغالب رہا لیکن اصولاً قرآن مجید جس اللہ پر ایمان کی دعوت دیتا ہے وہ ‘معاذ اللہ‘ کوئی خوفناک ہستی نہیں‘ بلکہ محبت کرنے والی‘ اورمحبت ہی نہیں پرستش کرنے کے لائق ہستی ہے‘ اس سے محبت کرو‘ اسے چاہو‘ اس سے لو لگاؤ. جیسے کہ سورۃ البقرۃ میں ارشاد ہوا : وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ؕ (آیت ۱۶۵) ’’ اورجو واقعتا صاحب ایمان ہیں وہ تو سب سے زیادہ اورشدید محبت اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتے ہیں‘‘.اور اس محبت کی اساسات ہیں جو سورۃ الفاتحہ کی ابتدائی دو آیات میں ہمارے سامنے آئیں کہ اللہ تعالیٰ تمام محاسن و کمالات کا جامع ہے‘ منبع و سرچشمہ ہے‘ وہ کائنات کا ربّ ہے‘ مالک ہے‘ پروردگار ہے‘ پالن ہار ہے‘ وہ الرحمن ہے‘ الرحیم ہے. اس کی رحمت ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کے مانند بھی ہے اور استمرار اور دوام کے ساتھ بہنے والے دریا کے مانند بھی ہے.