سورۃ الفاتحہ کا تیسرا حصہ اگرچہ تین آیات پر مشتمل ہے تاہم ان سے جملہ ایک ہی بنتا ہے. آئیے پہلے ان تین آیاتِ مبارکہ اور ان کے ترجمے پرایک نظر ڈال لیں: 

اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۵﴾صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۙ۬ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾ (آمین یا ربّ العالمین) 
’’(اے ربّ ہمارے!) ہمیں ہدایت بخش سیدھی راہ کی‘ راہ اُن لوگوں کی جن پر تیرا انعام ہوا‘ جو نہ تو مغضوب ہوئے اور نہ گمراہ‘‘.(اے تمام جہانوں کے مالک! ایسا ہی ہو)

پہلی تین آیات پر تدبّر سے ہم پر یہ حقیقت واضح ہو چکی ہے کہ ایمان باللہ یا توحید اور ایمان 
(۱) سنن النسائی‘ کتاب السھو‘ باب نوع آخر من الدعاء. بالآخرۃ یا معاد تک ایک سلیم الفطرت اور سلیم العقل انسان فطرت و عقل کی رہنمائی میں از خود بھی رسائی حاصل کر سکتا ہے جس کے نتیجے میں اس کے باطن میں ایک بے پناہ جذبۂ تشکّر پیدا ہو جاتا ہے. چوتھی آیت سے معلوم ہوا کہ اسی جذبۂ تشکر سے جذبۂ عبادت اُبھرتا ہے. اس سے آگے واقعہ یہ ہے کہ عقلِ انسانی خود اپنی محدودیت اور نارسائی کا اعتراف کرتی ہے کہ جہاں تک صراطِ مستقیم یعنی زندگی بسر کرنے کے معتدل و متوازن طریقے کا تعلق ہے‘ وہاں انسانی عقل بے بس اور محتاجِ ہدایت ہے. چنانچہ یہ ہے وہ مقام جہاں بندہ سراپا احتیاج بن کر ایک استدعا اور ایک درخواست اپنے مالک کے حضور پیش کرتا ہے کہ اے ربّ! ہماری رہنمائی فرما ‘یعنی ہمیں دکھا اور چلا اُس راستہ پر جس میں کوئی کجی نہ ہو‘ کوئی ٹیڑھ نہ ہو‘ افراط و تفریط کے دھکے نہ ہوں‘ جو ہمیں سیدھا تیری رضا تک پہنچانے والا اور آخرت کی کامیابی و کامرانی اور فوز وفلاح سے ہمکنار کرنے والا ہو.

’’ہدایت‘‘ عربی زبان کا ایک نہایت وسیع المفہوم لفظ ہے. اس میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ راستہ دکھادیا جائے‘ بتا دیا جائے‘ سجھا دیا جائے‘ یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ اس راستے پر ذہن اور قلب کو مطمئن کر دیا جائے ‘اور یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ انگلی پکڑ کر اس راستے پر چلا یاجائے اور بالآخر و بالفعل منزلِ مراد تک پہنچا دیا جائے. یہ ہدایت کے مختلف مراحل ہیں. سورۂ محمد ( ) میں فرمایا گیا: وَ الَّذِیۡنَ اہۡتَدَوۡا زَادَہُمۡ ہُدًی وَّ اٰتٰہُمۡ تَقۡوٰىہُمۡ ﴿۱۷﴾ ’’اوروہ لوگ جو ہدایت کے راستہ پر آئے اللہ نے ان کی ہدایت میں اضافہ کر دیا اور انہیں ان کے حصہ کا تقویٰ عطا فرما دیا‘‘. 

اسی طرح سورۂ مریم میں فرمایاگیا: وَ یَزِیۡدُ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اہۡتَدَوۡا ہُدًی ؕ (آیت۷۶’’اور اللہ ان لوگوں کی ہدایت میں اضافہ فرماتا ہے جو ہدایت اور راست روی کا راستہ اختیار کرتے ہیں‘‘. یہ ہدایت مسلسل بڑھتی چلی جاتی ہے‘ اس میں ترقی ہوتی چلی جاتی ہے. اللہ تعالیٰ اس کے تمام مدارج و مراحل مؤمنین صادقین کو طے کرا دیتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنی منزلِ مراد تک جا پہنچتے ہیں اور جنت میں داخلے کے وقت ان کی زبانوں پر یہ ترانہ ٔ‘ حمد جاری ہو جاتا ہے : الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ ہَدٰىنَا لِہٰذَا ۟ وَ مَا کُنَّا لِنَہۡتَدِیَ لَوۡ لَاۤ اَنۡ ہَدٰىنَا اللّٰہُ ۚ (الاعراف:۴۳’’تمام شکر و سپاس اور کُل تعریف و ثناء اللہ ہی کے لیے ہے جس نے ہمیں راستہ دکھایا اور ہمیں یہاں تک پہنچا دیا ‘اور ہم خود ہر گز راہ یاب نہ ہو سکتے اگر اللہ ہی ہماری رہنمائی نہ فرماتا‘‘. واضح رہے کہ یہی عقلی بنیاد ہے ایمان بالرسالت کی‘ کیونکہ ہدایت ِ الٰہی رسولوں ہی کے واسطے سے بنی نوعِ انسان تک پہنچتی ہے. چنانچہ سورۃ الاعراف کی اس آیت کے آخر میں کامیاب و بامراد مؤمنین کا یہ قول بھی نقل ہوا ہے : لَقَدۡ جَآءَتۡ رُسُلُ رَبِّنَا بِالۡحَقِّ ؕ ’’ہمارے ربّ کے رسول واقعی حق لے کر ہی تشریف لائے تھے‘‘.

یہاں یہ مغالطہ نہیں ہونا چاہیے کہ وہ شخص جو بنیادی حقائق تک خود پہنچ چکا ہے‘ جس نے اللہ کو پہچان لیا‘ اس کی توحید کو جان لیا‘ اس کی صفاتِ کمال کی معرفت حاصل کر لی‘ اس کی ربوبیت‘ رحمانیت و رحیمیت کا ادراک و شعور حاصل کر لیا‘ اس کے مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ہونے کا اقرار کر لیا‘ پھر اس کی بندگی اور پرستش کا عہد و پیمان کر لیا تو اسے تو گویا کُل ہدایت حاصل ہو گئی. اب اسے کون سی مزید ہدایت مطلوب ہے جس کے لیے وہ دعا کر رہا ہے کہ ’’اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ‘‘. یہاں انسان کی جس احتیاج کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ انسان اس دُنیوی زندگی کے مختلف معاملات میں جو نہایت پیچیدہ ہیں اور ان مسائل میں جو باہم گتھے ہوئے ہیں‘ ایک اعتدال کی روش اور ایک متوازن طرزِ عمل کا محتاج ہے اور اس کی یہ احتیاج ہمیشہ باقی رہے گی‘ اس لیے کہ تمدن کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ ان مسائل و معاملات کی پیچیدگیاں بھی مسلسل بڑھتی چلی جاتی ہیں اورحیاتِ انسانی کی یہ پیچیدگیاں اور ان کے گوناگوں تقاضے اورمطالبے اور ان کا آپس میں ٹکراؤ اور تصادم‘ یہ عقدہ ہائے لاینحل ہیں‘ اور کسی انسان کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ مجرد اپنی عقل اور تجربے کی بنیاد پر اِن جملہ سماجی و معاشرتی اور سیاسی و معاشی مسائل کا متوازن و معتدل اور عادلانہ و منصفانہ حل تلاش کر سکے ‘ جس پر چل کر وہ حیاتِ دُنیوی کی برکتوں اور سعادتوں سے بھی پُر سکون طور پر ہمکنار ہو سکے ‘اور حیاتِ اُخروی میں بھی نجات اور فوز و فلاح حاصل کر سکے. یہ ہے درحقیقت انسان کی اہم ضرورت جس کے لیے سلسلۂ نبوت و رسالت اور انزالِ وحی و کتب کی ضرورت پیش آئی. اور یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جہاں تک ایمان کے بنیادی تصورات کا تعلق ہے وہاں تک پہنچنے کے لیے انسان اپنی عقل اور فطرت سے بھی رہنمائی حاصل کر سکتا ہے‘ جیسا کہ سورۂ لقمان کے دوسرے رکوع کے ذریعے یہ حقیقت ہمارے سامنے آ چکی ہے کہ انسان اپنی فطرتِ صحیحہ اور عقل سلیم کی رہنمائی میں توحید اور معاد تک رسائی حاصل کر سکتاہے‘ لیکن زندگی کی پُرپیچ وادیوں میں سیدھی راہ کی تلاش‘ یہ انسان کے بس میں نہیں ہے. اس کے لیے وہ مجبور ہے کہ گھٹنے ٹیک کر اپنے مالک سے ہدایت کی درخواست کرے‘ اس لیے کہ واقعہ یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں اور یہی واحد ممکن راستہ ہے.

اس بات کو انسانی تمدن کے چند پیچیدہ مسائل کی مثال سے اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے. اس ضمن میں اوّلین اور قدیم ترین مسئلہ یہ ہے کہ مرد اور عورت کے مابین حقوق و فرائض کا صحیح توازن کیا ہے. ہر باشعور انسان جانتا ہے کہ اس معاملے میں تاریخ انسانی میں شدید افراط و تفریط نظر آتی ہے. کسی معاشرے میں عورت بالکل بھیڑ بکری کی طرح ایک مملوکہ کا درجہ رکھتی ہے. اس کے برعکس کہیں ہم دیکھتے ہیں کہ وہی عورت قلوپطرہ بن کر کسی ملک کی تقدیر کا فیصلہ کر رہی ہے اور اس کے لیے تباہی اور بربادی کا سامان فراہم کر رہی ہے. لہذا مرد اور عورت کے درمیان توازن و اعتدال اور عدل و انصاف عقل انسانی کے بس میں نہیں ہے. اس لیے کہ انسان لازماً مرد ہوگا یا عورت‘ اور ان میں سے ہر ایک صرف اپنی ہی مصلحتوں اور مفادات کو مدّنظر رکھنے پر مجبور ہے. گویا یہاں انسان اس فاطرِ فطرت کی رہنمائی کامحتاج ہے جس نے مرد کی تخلیق بھی کی ہے اور عورت کی بھی. جو دونوں کے عواطف اور میلانات کو بتمام و کمال جاننے والا ہے‘ جو تہذیب و تمدن میں دونوں کے حقوق و فرائض کا ایسا صحیح صحیح تعین کر سکتاہے جس کی بدولت انسانی تمدن کی گاڑی دونوں پہیوں پر ہمواری کے ساتھ سیدھی راہ پر آگے بڑھ سکے.

دوسری مثال فرد اور اجتماعیت کے باہمی تعلق و توازن سے متعلق ہے. اگر افراد کی انفرادی آزادی پر حدِّ اعتدال سے زیادہ زور ہوتا ہے اور ان کے حقوق کا ضرورت سے زیادہ لحاظ رکھا جاتا ہے تو پلڑا ایک جانب جھک جاتا ہے اور مادر پدر آزادی انتشار اور انارکی کا روپ دھار لیتی ہے. اس کے برعکس کہیں ایساہوتا ہے کہ اجتماعیت اس طور پر مسلط ہو جاتی ہے کہ اس کے نیچے فرد سسکنے لگتا ہے اوراس کے حقوق بالکل پامال ہو جاتے ہیں. اس کی آزادی اور حریت کو اجتماعیت کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے. ان دو انتہاؤں کے مابین توازن قائم رکھنا نہایت کٹھن ہے اور واقعہ یہ ہے کہ عقل انسانی اس کی صلاحیت نہیں رکھتی کہ وہ ایسے صحیح نقطۂ عدل کا تعین کر سکے کہ فرد کے حقوق بھی برقرار رہیں‘ اس کی انفرادی شخصیت کے صحت مند ارتقاء کے امکانات بھی روشن رہیں‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ فرد معاشرے کے لیے ایک مضر اور نقصان دہ عنصر کی حیثیت اختیار نہ کر سکے‘ بلکہ ان دونوں کے مابین ایک مبنی بر عدل اور کامل توازن والا نظام قائم ہو سکے.عمرانیات کی تاریخ سے ادنیٰ واقفیت رکھنے والے بھی اس سے واقف ہیں کہ انسانی عقل اور تجربات تا حال ایسا نظام قائم کرنے سے یکسر قاصررہے ہیں اور ان کے تجویز کردہ نظام لازماًافراط و تفریط کا شکار رہے ہیں.

یہی معاملہ معاشی مسائل کا بھی ہے جنہوں نے خاص طور پر صنعتی انقلاب کے بعد ایک نہایت گھمبیر اور لاینحل عقدے کی صورت اختیار کر لی ہے. یعنی یہ کہ سرمایہ اور محنت کے مابین صحیح توازن کیسے قائم کیا جائے اور اقتصادی معاملات میں عدل و اعتدال کے تقاضے کیسے پورے کیے جائیں. اس معاملے میں نقطۂ عدل و قسط کی تلاش میں نوعِ انسانی کتنی سرگرداں ہے اور کیسے کیسے تجربے کر رہی ہے‘ وہ روزِ روشن کی طرح ہمارے سامنے ہے. کہیں وہ انفرادی ملکیت کی نفی ٔکُلی کا تجربہ کرتی ہے جس سے انسان کی شخصی آزادی اور اس کی آزاد شخصیت کچل کر رہ جاتی ہے. کہیں ایسا ہوتاہے کہ سرمایہ ایک بہت بڑے ڈکٹیٹر کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور ایک سرمایہ دارانہ آمریت معاشرے پر مسلط ہو جاتی ہے ‘جس میں امیر‘ امیر تر اور غریب ‘ غریب تر ہوتا چلا جاتا ہے اور کسانوں اور مزدوروں کے لیے ایک باعزت اور آسودہ زندگی بسر کرنا محال ہو جاتا ہے.

یہ ہیں وہ تین پیچیدہ اور اُمّہات المسائل جن کے گونا گوں شعبوں اور پیچ در پیچ شاخوں اور پھر ان کے متضاد تقاضوں کو ایک متوازن و معتدل نظام میں سمونے سے انسان قاصر ہے. اس لیے کہ ان کے حل کے لیے جب بھی انسان سوچے گا ‘ اپنے قریبی ظروف و احوال میں رہ کر سوچے گا‘ اوراُن کا حل تلاش کرنے میں وہ اپنی ذات‘ گروہ یا طبقے سے بلند تر ہو کرمعتدل اور منصفانہ راہ تلاش نہ کر پائے گا اور اس کی سوچ میں کہیں نہ کہیں کجی رہ جائے گی. اس کا جھکاؤ کسی نہ کسی طرف ہو جائے گا. نتیجتاً وہ صراطِ مستقیم اور سَوَآءَ السَّبِیۡلِ سے بھٹک جائے گا. قرآن مجید اس معتدل اورمتوازن راستے کومختلف ناموں سے تعبیر کرتا ہے. سورۃ الفاتحہ میں اسے صراطِ مستقیم کہا گیا ہے ‘یعنی سیدھا راستہ. کہیں اسے سَوَآءَ السَّبِیۡلِ کہا گیا ہے‘ کہیں صِرَاطِ السَّوِیِّ کہا گیا ہے‘ یعنی برابری کا راستہ‘ جیسے خط استواء ہے جو ہمارے کرۂ ارضی کو دو برابر حصوں میں تقسیم کرتا ہے. پس سَوَآءَ السَّبِیۡلِ وہ راستہ ہو گا جس میں کامل توازن ہو‘ افراط و تفریط نہ ہو‘ کسی ایک جانب جھکاؤ نہ ہو جائے. کہیں اسے قَصۡدُ السَّبِیۡلِ سے تعبیر کیا گیا ہے‘ یعنی معتدل اور درمیانی راستہ جس میں نہ ایچ پیچ ہو نہ اونچ نیچ . کہیں اسے سُبُلَ السَّلٰمِ کہا گیا ہے‘ یعنی سلامتی کا راستہ جس میں امن و سکون ہو‘ ظلم و عدوان نہ ہو‘ تعدّی و استحصال نہ ہو.

یہ ہے درحقیقت انسان کی وہ احتیاج جس کے لیے وہ گھٹنے ٹیک کر اپنے پروردگار کے سامنے استدعا کرنے پر مجبور ہے کہ اے میرے ربّ! میں نے تجھے پہچان لیا‘ تیری توحید کو جان لیا‘ ادنیٰ درجے ہی میں سہی لیکن مجھے تیری صفات ِ کمال کی معرفت بھی حاصل ہو گئی. میں نے یہ بھی جان لیا کہ مجھے مرنے کے بعد تیرے حضور میں حاضر ہونا ہے. میں یہ بھی جان چکا ہوں کہ اس دن کامل اختیار صرف تیرے ہاتھ میں ہوگا. میں نے یہ ارادہ اور عزم بھی کر لیا ہے کہ میں تیری ہی بندگی اور پرستش کروں گا اور اس کے لیے میں تیری ہی اعانت و امداد کا محتاج ہوں‘ لہذا اب میں تجھ سے یہ درخواست کرتاہوں کہ زندگی بسر کرنے کا صراطِ مستقیم‘ صِرَاط السَّوِیّ‘ سواء السبیل اور سبل السلام مجھ پر واضح فرما دے. مجھے اس کی ہدایت عطا فرما‘ اس کے لیے میرے دل کو اطمینان و انشراح بخش. مجھے اس پر چلنے کی توفیق دے اور اس پر چلاتے ہوئے مجھے میری کامیابی و کامرانی اور فوز و فلاح کی آخری منزل تک پہنچا دے.واضح رہے کہ یہی ایمان بالرسالت کی عقلی بنیاد ہے‘ کیونکہ اس ہدایت ِ ربّانی کو انسانوں تک پہنچانے کے منصب ِ جلیل پر رسولوں کی مقدس جماعت فائزہوتی رہی ہے اور اس سلسلۃ الذّہب کی آخری کڑی ہیں خاتم النبیین‘ سیّد المرسلین ‘ ہادیٔ آخر الزمان حضرت محمد رسول اللہ .

یہ ایک قاعدہ کلیہ ہے کہ جس چیز کی اہمیت و وقعت زیادہ ہوتی ہے اسے مزید واضح کیا جاتا ہے‘ چنانچہ انسان کے دل میں جس چیز کی محبت ہوتی ہے وہ اس کا ذکر کثرت سے کرتا ہے. لہذا اس صراطِ مستقیم کی اہمیت پر زور دینے کے لیے اس کی مزید وضاحت خود اُسی کی زبان سے کرائی جا رہی ہے کہ : 

اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۵﴾صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۙ۬ 
’’(اے ربّ) ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت عطا فرما‘ ان لوگوں کے راستے کی جن پر تونے انعام فرمایا‘‘.

یہ لوگ کون ہیں؟ اس سورۂ مبارکہ میں غایت ِ اجمال و اختصار ہے. اس لیے یہاں ساری تفاصیل ممکن نہیں تھیں. لیکن قرآن مجید کی تفسیر کا یہ اصول پیش نظر رکھئے کہ اَلْقُرْآنُ یُفَسِّرُ بَعْضُہٗ بَعْضًا ’’قرآن کا ایک حصہ دوسرے حصے کی تفسیر کرتاہے‘‘. اس کے مطابق اگر تلاش کیا جائے کہ ’’اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ‘‘ کی تفسیر قرآن مجید میں کہاں واردہوئی ہے تو سورۃ النساء کی یہ آیت سامنے آئے گی: 

وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا ﴿ؕ۶۹﴾ 
’’اور جو لوگ اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت پر کاربند ہو جائیں گے تو ان کو معیت اور رفاقت نصیب ہوگی ان کی جن پر اللہ کا انعام ہوا‘ یعنی انبیائے کرام‘ صدیقین‘ شہداء اور صالحین. اوربہت ہی اچھے ہیں یہ رفیق(جو کسی کو میسر آجائیں)‘‘.

یہ چار گروہ ہیں 
مُنْعَمْ عَلَیْہِمْ کے. یہ ہیں وہ لوگ جن پر اللہ کا انعام و فضل ہوا‘ یہ ہیں وہ لوگ جن کو اللہ نے اپنی نعمتوں سے نوازا. ان میں انبیاء کرام علیہم السلام سب سے بلند اور سب سے اونچے مرتبے پر فائز ہیں. ان کے بعد درجہ ہے حضرات ِ صدیقین کا. ان کے بعد تیسرے نمبر پر آتے ہیں شہدائے کرام‘ پھر چوتھے نمبر پر عام مؤمنین صالحین ہیں. اس موقع پر نوکِ قلم پر دعا آ رہی ہے کہ اے ربّ ہمارے! ہمیں اِن منعم علیہم کے راستے کی ہدایت بخش ‘ ہمیں ان کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرما دے اور ہمیں ان کی رفاقت نصیب فرما!(آمین)
صراطِ مستقیم کی اس مثبت انداز میں وضاحت کے بعد ایک سلبی اور منفی انداز میں بھی وضاحت کی گئی: 

غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾ 
’’جو نہ مغضوب علیہم میں شامل ہیں اور نہ ہی گم کردہ راہ ہیں‘‘.

درحقیقت یہ دوکیفیات یا دو درجات ہیں جنہیں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے. ایک درجہ مغضوب علیہم کا ہے جو بہت ہی ناپسندیدہ ہے اور گویا ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیۡدًا کا مصداق ہے. جب کوئی فرد یا کوئی قوم یا اُمت ہدایت کی راہ کو اپنے نفس کی شرارتوں کے باعث اور اپنی خواہشات و شہوات کا اتباع کرتے ہوئے جان بوجھ کر چھوڑ دے‘ صداقت وہدایت کی راہ سے جان بوجھ کر اعراض کرے‘ اس سے مُنہ موڑے تو اُن کو قرآن ’’مغضوب علیہم‘‘ قرار دیتا ہے‘ یعنی جن پر اللہ کاغضب نازل ہوا. گویا جو لوگ حق کو حق اور باطل کو باطل جان کر بھی اپنے تعصبات کی وجہ سے‘ یا اپنی خواہشاتِ نفس کی وجہ سے یا اپنے تکبر اور حسد کی بنیاد پر حق کو چھوڑکر باطل کو اختیار کرتے ہیں تو وہ مغضوب علیہم ہیں.
ایک دوسرا گروہ ان کا ہے جو مغالطوں میں مبتلا ہو کر گمراہ ہو جاتے ہیں. اس معاملے میں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے ‘ جیسے ہم ’’نیکی کی حقیقت‘‘کی بحث میں دیکھ چکے ہیں‘ کہ انسان غلط 
راستہ پر چل پڑتا ہے. اس کا کوئی اچھا جذبہ غیر معتدل ہو کر کسی غلط صورت میں ڈھل جاتا ہے. اس گروہ کے متعلق قرآن کہتا ہے : ’’ضَآلِّیۡنَ ‘‘ یعنی وہ لوگ جو بھٹک گئے ‘ جوگم کردہ راہ ہیں‘ وہ قافلہ جو اپنا صحیح راستہ بھول کر کسی دوسری جانب نکل گیا. لفظ ’’ضَالّ‘‘ کا ایک دوسری صورت پر بھی اطلاق ہوتا ہے کہ جو شخص ابھی تلاشِ حقیقت میں سر گرداں ہو‘ اس کے اندر طلب ِ ہدایت موجود ہو‘ لیکن ابھی وہ غور و فکر کے مراحل طے کر رہاہو. ایسے شخص کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہو جاتا ہے. چنانچہ نبی اکرم کے بارے میں بھی سورۃ الضحیٰ میں یہی لفظ استعمال کیا گیا : وَ وَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی ۪﴿۷﴾ ’’(اے نبیؐ !) آپؐ کو پایا آپ کے ربّ نے تلاشِ حقیقت میں سرگرداں تو آپ پر ہدایت کاراستہ کھول دیا‘‘. آپؐ میں تلاشِ حقیقت کا جذبہ اس شدت کے ساتھ اُبھرا کہ آپؐ نے غارِ حرا کی خلوت گزینی غور و فکر اور سوچ بچار میں کُلی انہماک کے لیے اختیارفرمائی ‘ لہذا پروردگارکی جانب سے پردے اٹھا دیے گئے اور نزولِ وحی کا آغاز ہوگیا.

الغرض ’’ضالّین‘‘ کا لفظ ’’مغضوب علیہم‘‘ کے بنسبت بہت ہلکا ہے. مغضوب علیہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے شرارتِ نفس کے طفیل محض اپنی خواہشات و شہوات کے اتباع میں حق کو جان بوجھ کر ترک کر دیا اور ضالّین وہ ہیں جو یا توکسی مغالطے کے باعث راہ حق سے بھٹک گئے ہیں یا ابھی تلاشِ حق میں سرگرداں ہیں. مفسرین کے نزدیک مغضوب علیہم کی سب سے بڑی مثال یہودہیں‘ جنہوں نے جو ٹھوکریں کھائیں وہ کسی اندھیرے کے باعث نہیں کھائیں‘ بلکہ اُس وقت کھائیں جب سورج نصف النہار پر چمک رہا تھا. ان کے پاس اللہ کا کلام موجود تھا‘ اللہ کی ہدایت موجود تھی‘ اللہ کی شریعت موجود تھی‘ لیکن اپنی شرارتِ نفس کے باعث انہوں نے اس میں تحریفات کیں. اس کے بجائے کہ اپنے آپ کو اللہ کی منشاء کے مطابق ڈھال لیتے‘انہوں نے اللہ کے کلام اور اس کے قانون کو اپنی خواہشات کے رُخ پر ڈھال لیا. یعنی وہی رویّہ ہے جو علامہ اقبال کے بقول ہمارے علمائے سُوء نے اختیار کیا کہ : ؎

خود بدلتے نہیں‘ قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق!

اگرچہ نبی اکرم کے خاتم النبیین ‘ اُمت مسلمہ کے آخر الاُمم اور قرآن کے ؏ ’’نوعِ انساں را پیامِ آخریں!‘‘ کے مصداق آخری کتاب ہونے کی برکت سے قرآن کا متن محفوظ و مصئون رہا اور تحریف جو بھی ہوئی صرف ترجمہ اور تفسیر میں ہوئی‘ جبکہ سابقہ اُمتیں‘ بالخصوص یہود اس معاملے میں بہت دُور نکل گئے تھے اور ان کے علماء نے تو اللہ کی کتاب میں لفظی تحریف تک بھی کر دی تھی. لہذا یہ ’’مَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ ‘‘ کے زمرے میں شامل ہیں. یہی وجہ ہے کہ ان کے متعلق قرآن کہتا ہے : ضُرِبَتۡ عَلَیۡہِمُ الذِّلَّۃُ وَ الۡمَسۡکَنَۃُ ٭ وَ بَآءُوۡ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ ؕ (البقرۃ:۶۱’’ان پر ذلت اور مسکنت تھوپ دی گئی اور وہ اللہ کا غضب لے کرلوٹے‘‘. اس لیے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے حامل ہونے کے باوجود اپنی شرارتِ نفس کے باعث اس ہدایت سے روگردانی کی اور اپنی خواہشاتِ نفس کا اتباع کیا اور نبی اکرم کی دعوت کی مخالفت میں پیش پیش رہے.

سابقہ اُمم میں سے ’’ضالّین‘‘ کی نمایاں مثال نصاریٰ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متبعین ہیں. اس لیے کہ محبت اور عقیدت کے غلو میں انہوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کا مقام اتنا بڑھایاکہ معاذ اللہ انہیں اللہ کا بیٹا قرار دے دیا. ساتھ ہی عملی طور پر انہوں نے رہبانیت کی بدعت اختیار کی جس کے متعلق سورۃ الحدید میں ارشاد ہوا: وَ رَہۡبَانِیَّۃَۨ ابۡتَدَعُوۡہَا مَا کَتَبۡنٰہَا عَلَیۡہِمۡ (آیت ۲۷’’اوررہبانیت کی بدعت خود انہوں نے اختیار کی ‘ ہم نے اسے ان پر لازم نہیں کیا تھا‘‘. یہ درحقیقت ایک خلافِ فطرت نظام تھا جو انہوں نے خود اپنی مرضی سے اپنی نیکی کے جذبے میں حدِّ اعتدال سے تجاوز کرتے ہوئے ‘اپنے اوپر غیر فطری پابندیاں عائد کرتے ہوئے اختیار کر لیا تھا. ان میں کچھ لوگ تو ضرور ایسے باہمت نکلے جو اِن پابندیوں کو نباہ گئے ‘لیکن ان کی اکثریت ان پابندیوں کو نباہ نہ سکی. نتیجتاً جو کچھ ہو سکتا تھا وہ ہوا اور راہب خانوں کے تہہ خانوں میں ناجائز اولاد کے قبرستان آباد ہو گئے. یہ سارا معاملہ اس لیے ہوا کہ انہوں نے فطرت کے خلاف کام کیا. چنانچہ مفسرین کی اکثریت کے نزدیک سورۃ الفاتحہ میں ’’مغضوب علیہم‘‘ سے مراد یہود اور ’’ضالّین‘‘ سے مراد نصاریٰ ہیں. ویسے اس مفہوم کو عام رکھا جائے تب بھی کوئی حرج نہیں ہے‘ اگرچہ ان کی یہ دو نمایاں مثالیں صد فیصد درست ہیں.

بہرحال یہ ہے سورۃ الفاتحہ کا وہ تیسرا حصہ جس کا تذکرہ اس حدیثِ قدسی میں بایں الفاظ ہو چکا ہے: ہٰذَا لِعَبْدِیْ وَلِعَبْدِیْ مَا سَأَلَ ’’یہ میرے بندے کے لیے ہے اور میں نے دیا اپنے بندے کو جو اُس نے طلب کیا‘‘. واقعہ یہ ہے کہ یہ حدیث قدسی اس سورۂ مبارکہ کے تجزیے میں بھی بہت مفید ہے اور اس کی عظمت کو بھی بتمام و کمال اور بحسن و خوبی ظاہر کر رہی ہے. یہ فطرت ِ انسانی کی وہ ترجمانی ہے کہ اگر واقعتا یہ الفاظ کسی شخص کی زبان سے گہرے شعور و احساس اور قلب و ذہن کی گہرائیوں سے نکل رہے ہوں تو ان کی تأثیر وہی ہے جو اِس حدیث قدسی میں وارد ہوئی ہے کہ اِدھر بندہ ایک ایک جملہ کہتا ہے اُدھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا جواب ملتا چلا جاتا ہے. بقول علامہ اقبال : ؎ 

اَفلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
کرتے ہیں خطاب آخر‘ اٹھتے ہیں حجاب آخر

سورۃ الفاتحہ کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ سورۂ مبارکہ قرآن حکیم کا ایک نہایت خوبصورت اور انتہائی موزوں مقدمہ اور دیباچہ ہے. فطرتِ انسانی کی وہ پیاس اور صراطِ مستقیم کی وہ احتیاج جس کی ترجمانی سورۃ الفاتحہ میں کی گئی ہے‘ اسی کی جانب رہنمائی کے لیے قرآن مجید نازل ہوا ہے. یہی وجہ ہے کہ اس سورۂ مبارکہ کے فوراً بعد وارد ہوتے ہیں یہ الفاظِ مبارکہ: الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ ۚۖۛ فِیۡہِ ۚۛ ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ یعنی یہ ہے وہ کتاب جو ہر شک و شبہ سے بالاتر ہے. یہ کسی فلسفی کے من گھڑت خیالات و نظریات اور ذہن انسانی کی تگ و تاز پر مبنی نہیں ہے. یہ ’’الحق‘‘ یعنی سراسر حق پر مبنی ہے. یہ کتاب ان لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے نازل ہوئی ہے جن میں سیدھے راستے کی طلب اور پیاس موجود ہے. گویا یہ ہے اس سورۂ مبارکہ کا پورے قرآن مجید کے ساتھ تعلق. مزید برآں مباحث ِ ایمان کے ذیل میں اس سورۂ مبارکہ کے مطالعہ سے یہ بات متعین ہو جاتی ہے کہ انسان اپنی عقل اور فطرت کی رہنمائی میں کہاں تک رسائی حاصل کر سکتاہے. یہی ہے وہ بات جسے علامہ اقبال نے یوں بیان فرمایا : ؎

عقل گو آستاں سے دُور نہیں
اس کی قسمت میں پر حضور نہیں

عقل یقینا آستان سے دُور نہیں ہے‘ اس کی رہنمائی میں انسان بہت کچھ حاصل کر سکتاہے‘ لیکن جہاں وہ محتاج ہے وہ درحقیقت وہ ہدایت و رہنمائی ہے جو اسے اپنی زندگی کے گوناگوں اور مختلف پہلوؤں میں ہر ہرلحظہ اور ہر ہر قدم پر عمل کے لیے درکار ہے. اس کے لیے وہ ہدایت ِ آسمانی کا بالکلیہ محتاج ہے. اسی لیے اس کی فطرت پکارتی ہے اور استدعا کرتی ہے : اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۵﴾. اس فطرت کی پکار کا جواب ہے پورا قرآن مجید. اللہ تعالیٰ ہمیں بھی صراطِ مستقیم کی ہدایت بخشے اور اس پر استقامت عطا فرمائے. آمین! 

وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ