قارئین کرام ان آیاتِ مبارکہ کے ترجمے پر ایک نگاہ ڈال لیں تو یہ نکات ان کے سامنے آئیں گے کہ اس رکوع کی پہلی پانچ آیات میں ’’اولوالالباب ‘‘ کے بارے میں اوّلین بات یہ سامنے آتی ہے کہ یہ لوگ کتابِ فطرت کے مطالعے اور مظاہرِ فطرت کے مشاہدے سے اللہ کی معرفت حاصل کرتے ہیں. ان کے ذہنی اور شعوری سفر کا دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ اللہ کو پہچان لینے کے بعد اُس کی ذاتِ اقدس سے ایک مضبوط ذہنی رشتہ و تعلق استوار کر کے مزید غور و فکر کرتے ہیں اور بقول علامہ اقبال خرد کی مزید گتھیاں سلجھاتے ہیں تو ان کی رسائی ایمان بالمعاد یعنی ایمان بالآخرۃ تک ہو جاتی ہے. گویامعرفت ِ الٰہی اور مکافات و مجازاتِ عمل اور اس کے لیے ایک دوسری زندگی کے منطقی لزوم تک رسائی ان کے اپنے مطالعہ و مشاہدہ اور تعقل و تفکر کا حاصل ہوتی ہے.اس ارتقائی عمل کا تیسرا مرحلہ یہ ہے کہ جب کسی نبی کی دعوت ایسے لوگوں کے کانوں میں پڑتی ہے جو اِن ہی امور پر مشتمل ہوتی ہے تو وہ والہانہ انداز میں اس پر لبیک کہتے ہیں.
اس سبق کی آخری آیت ( ۱۹۵) میں ایسے لوگوں کے سیرت و کردار کی ایک جھلک دکھا دی گئی ہے کہ یہ لوگ بودے اور بزدل نہیں ہوتے ‘بلکہ جہاں عقل وشعور کے اعتبار سے پختہ ہوتے ہیں وہاں ان کا کردار اور ان کی سیرت بھی بہت مضبوط ہوتی ہے. چنانچہ جس بات کو عقل و فطرت اور ذہن و قلب سے حق سمجھ کر قبول کرتے ہیں اس کے لیے مال و منال‘ اہل و عیال‘ اعزّہ و احباب سب کچھ چھوڑنے حتیٰ کہ جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے ہر دم تیار رہتے ہیں اور وقت آنے پر بالفعل جان و مال کی بازیاں کھیل کر دکھاتے ہیں!
اس درس کے ضمن میں تیسری اور آخری تمہیدی بات اس کا ہمارے سابقہ دروس سے ربط و تعلق ہے .اس سلسلۂ دروس کے نقطۂ آغاز یعنی سورۃ العصر میں انسان کی نجات اور فوز و فلاح کی چار ناگزیر شرائط سامنے آئی تھیں: ایمان‘ عملِ صالح‘تواصی بالحق اور تواصی بالصبر. یہی مضمون اپنی پوری جامعیت کے ساتھ مگر قدرے مختلف سیاق و سباق میں وارد ہوا تھا آیۂ بر میں بھی اور سورۂ لقمان کے دوسرے رکوع میں بھی. اس تناظر میں یہاں ہم دیکھ رہے ہیں کہ ان چار لوازمِ نجات میں سے ایمان اور صبر یعنی پہلی اور آخری شرائط کے بارے میں گفتگو ہو رہی ہے. گویا درمیانی دوشرط یہاں مقدر ہیں. پھر سورۂ لقمان کے دوسرے رکوع میں حضرت لقمان کی شخصیت سامنے آچکی ہے جو نہ نبی تھے اور نہ ہی کسی رسول کے اُمتی تھے‘ لیکن فطرتِ سلیمہ اور عقلِ صحیح کی رہنمائی میں وہ ایمان باللہ ‘ التزامِ توحید اور اجتناب عن الشرک کے علاوہ قانونِ مجازات و مکافاتِ عمل تک بھی پہنچ گئے تھے. یہی مضمون سورۃ الفاتحہ میں سامنے آ چکاہے کہ ایک سلیم الفطرت اورصحیح العقل انسان اللہ تعالیٰ کی معرفت بھی حاصل کر لیتا ہے اور اسے جزا و سزاکا شعوربھی حاصل ہو جاتا ہے‘ لیکن پھر وہ زندگی کے پیچیدہ مسائل و معاملات میں تفصیلی رہنمائی کامحتاج ہوتا ہے‘ جس کے لیے وہ اپنے ربّ کے سامنے دست ِ سوال دراز کرتا ہے کہ اے ہمارے ربّ! اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ’’ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت عطا فرما!‘‘ یہاں سے رسالت کی ضرورت کی دلیل قائم ہوتی ہے.
سورۂ آل عمران کے آخری رکوع کی پہلی پانچ آیات اس اعتبار سے قرآن حکیم کے اہم ترین مقام کی حیثیت رکھتی ہیں کہ ان میں عقل و فطرت کی رہنمائی میں توحیداورمعاد تک رسائی کے تدریجی عمل کے ان منطقی اور ارتقائی مراحل کا بیان نہایت اجمال کے ساتھ آ گیا ہے جو قرآن حکیم کی مکی سورتوں میں شرح و بسط کے ساتھ بیان ہوئے ہیں.
زیر مطالعہ آیات کے بارے میں بعض تمہیدی باتوں کے بیان کے بعد اب ہمیں ان آیاتِ مبارکہ پر ذرا گہرائی میں غور و فکر کرنا ہے. اوّلاً ہم اپنی توجہات کو صرف تین آیات پرمرکوز رکھیں گے. اس کے لیے مناسب ہے کہ پہلے ان آیات کا ترجمہ ذہن نشین کر لیا جائے جو حسب ِ ذیل ہے:
’’یقینا آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات اور دن کے الٹ پھیر میں ہوش مند (اورباشعور) لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں. وہ لوگ جو بیٹھے اور کھڑے اور اپنے پہلوؤں پر )لیٹے ہوئے) ہر حال میں اللہ کو یاد رکھتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غور و فکر کرتے ہیں (وہ بے ساختہ پکار اٹھتے ہیں کہ) اے ربّ ہمارے! تونے یہ سب کچھ بے کار اور بے مقصد پیدا نہیں کیا. تو اس سے پاک ہے (کہ کوئی کام بے کار اور بے مقصد کرے!) پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا. اے ربّ ہمارے! بے شک جسے تو نے آگ میں داخل کیا اسے تو تُونے پوری طرح رسوا کر دیا‘ اور ایسے ظالموں کا یقینا کوئی مددگار نہیں‘‘.