الالباب‘‘ کی اصطلاح وارد ہوئی ہے ‘ یعنی ’’الباب والے‘‘. ’’الباب‘‘ جمع ہے ’’لُبّ‘‘ کی. لُب کسی چیز کے اصل جوہر کو کہتے ہیں. چنانچہ ہم عام بول چال والی اردو میں بھی کہتے ہیں کہ ’’پوری بحث کا لُبِّ لباب یہ ہے‘‘. گویا کسی شے کا اصل جوہر اس کا ’’لُبّ‘‘ کہلاتاہے. اب غور کا مقام ہے کہ انسانیت کا اصل جوہر کیا ہے؟ آپ کو معلوم ہوگا کہ اہل منطق اور اہل فلسفہ نے انسان کو ’’حیوانِ عاقل‘‘ قرار دیاہے. لہذا انسان کا خلاصہ اور اس کا اصل جوہر یا بالفاظِ دیگر اس کا لُبِّ لباب اس کی عقل ہے. پس اس آیتِ مبارکہ میں ’’اولو الالباب‘‘ سے وہ ہوش مند اور باشعور لوگ مراد ہیں جو عقل سے کام لیتے ہیں اور خواہشات و شہوات کے بجائے عقل کی پیروی کرتے ہیں.
فہمِ قرآن کا ایک اہم اور سنہری اصول یہ ہے کہ قرآن مجید کا ایک حصہ دوسرے حصے کی تفسیر کرتا ہے. چنانچہ اس اصول کو سامنے رکھ کر جب ہم نگاہ دوڑاتے ہیں تو عجب حسنِ اتفاق سامنے آتا ہے کہ زیرمطالعہ آیت مبارکہ سورۂ آل عمران کے بیسویں رکوع کی پہلی آیت ہے اور سورۃ البقرۃ کے بیسویں رکوع کی پہلی آیت میں بھی یہی مضمون بڑی تفصیل سے آیا ہے. سورۃ البقرۃ کی اس آیت کو اگر ’’آیۃ الآیات‘‘سے موسوم کیا جائے تو نہایت مناسب ہوگا. اس لیے کہ اس ایک آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی متعدد نشانیاں جمع فرما دی ہیں اور مظاہر فطرت کی ایک طویل فہرست بیان فرما دی ہے:
اِنَّ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافِ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ وَ الۡفُلۡکِ الَّتِیۡ تَجۡرِیۡ فِی الۡبَحۡرِ بِمَا یَنۡفَعُ النَّاسَ وَ مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآءِ مِنۡ مَّآءٍ فَاَحۡیَا بِہِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِہَا وَ بَثَّ فِیۡہَا مِنۡ کُلِّ دَآبَّۃٍ ۪ وَّ تَصۡرِیۡفِ الرِّیٰحِ وَ السَّحَابِ الۡمُسَخَّرِ بَیۡنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّعۡقِلُوۡنَ ﴿۱۶۴﴾ (البقرۃ) ’’یقینا آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات اور دن کے اُلٹ پھیر میں اور اُس کشتی میں جو سامان کو دریا میں لے کر چلتی ہے جس سے لوگوں کو نفع پہنچتا ہے اور وہ پانی کہ جو اللہ نے بلندی سے برسایا اور اس کے ذریعے سے زمین کو مُردہ ہو جانے کے بعد از سرِ نو زندہ کیا اور اس میں ہر قسم کی جاندار چیزوں کو پھیلا دیا‘ اور ہواؤں کے چلنے میں اور اُس بادل میں جو آسمان اور زمین کے مابین معلّق ہے‘ نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں‘‘.
دیکھئے یہاں آخر میں الفاظ آئے ’’لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّعۡقِلُوۡنَ ‘‘ جبکہ سورۂ آل عمران میں الفاظ آئے: ’’لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الۡاَلۡبَابِ ‘‘. معلوم ہوا کہ اولوالالباب وہ لوگ ہیں جو عقل سے کام لیتے ہیں‘ جن کی عقل پر جذبات و شہوات اور تعصبات کے پردے نہیں پڑے ہوتے‘ جو تفکر و تدبّر کرتے ہیں اور جن کا شعور بیدار ہوتا ہے.
یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ ہر معاشرے میں اور ہر دَور میں انسانوں کی عظیم اکثریت تو ایسے لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے جنہیں اگر ’’دوٹانگوں پر چلنے والا حیوان‘‘ قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا. اس لیے کہ وہ جس ماحول میں آنکھیں کھولتے ہیں وہاں جو کچھ ہوتا دیکھتے ہیں وہی خود بھی کرنے لگتے ہیں. ان کی اپنی آزاد فکر اور سوچ نہیں ہوتی. وہ غور ہی نہیں کرتے کہ ہم کون ہیں؟ کہاں سے آئے ہیں؟ ہماری زندگی کا مآل کیا ہے؟ مبدأ کیا ہے؟ معاد کیا ہے؟خیر کیا ہے اور شر کیا ہے؟ علم کے قابلِ اعتماد ذرائع کون سے ہیں؟ اور اِس زندگی کا مقصد کیا ہے؟ لیکن ہر دَور اورہر معاشرے میںکچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کا مزاج تقلیدی نہیں ہوتا. جو خود سوچتے ہیں اور خود کسی نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں. فلسفہ اور مذہب کے مابین جو اصل اور بنیادی سوالات مشترک ہیں وہ اُن کے بارے میں تفکر و تدبر اور غور و خوض کرتے ہیں. گویاوہ زندگی کا راستہ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر طے کرنا چاہتے ہیں. یہ ہیں وہ لوگ جو اولوالالباب ہیں‘ ہوش مند ہیں ‘ باشعور ہیں. یہ کسی سوسائٹی کی ذہین و فطین اقلیت ہوتے ہیں. اس آیتِ مبارکہ میں فرمایا جا رہا ہے : ’’یقینا آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات اور دن کے الٹ پھیر میں نشانیاں ہیں ہوش مند اور باشعور لوگوں کے لیے‘‘. یعنی اگر یہ لوگ کتابِ فطرت کا مطالعہ کریں تو انہیں کائنات میں ہر چہار طرف نشانیاں نظر آئیں گی. نشانیاں کس کی؟ اس کی صراحت نہیں کی گئی. مراد ہے اللہ کی نشانیاں. یعنی کتابِ فطرت کا مطالعہ اور مظاہرِ قدرت کا مشاہدہ ایمان باللہ کے ذرائع ہیں‘ کیونکہ ان میں سے ہر ہر چیز ذاتِ باری تعالیٰ اور اُس کی توحید کی نشانی ہے.