اسی رُخ پر مزید غور و فکر سے ان ہوش مند اور باشعور لوگوں کو اس خالقِ کائنات اورمدبّر و منتظم حقیقی کی تین اساسی صفاتِ کمال کا علم ہوتا ہے.یعنی ایک یہ کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے. گویا وہ ’’قادر ِ مطلق‘‘ ہے اور اس کی قدرت سے کوئی شے خارج یا بعید نہیں ہو سکتی. اگر ایسا نہ ہوتا تویہ وسیع وعریض کائنات ہر گز وجود میں نہ آ سکتی جس کی وسعتوں اور پہنائیوں کاتاحال کوئی اندازہ انسان نہیں کر پایا ہے. دوسری یہ کہ اس کائنات کو پیداکرنے والا ’’بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ‘‘ یعنی ہر چیز کا جاننے والا بھی ہے اور اس کے علم میں کہیں کوئی کمی اور نقص نہیں ہے. اس لیے کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ جس نے کسی چیزکو پیداکیا ہو وہ اُس سے بے خبر یا ناواقف ہو‘ جیسے کہ سورۃ الملک میں فرمایا: اَلَا یَعۡلَمُ مَنۡ خَلَقَ ؕ وَ ہُوَ اللَّطِیۡفُ الۡخَبِیۡرُ ﴿٪۱۴﴾ ’’کیا وہ نہ جانے گا جس نے پیداکیا؟ وہ تو نہایت باریک بین بھی ہے حد درجہ باخبر بھی!‘‘ تیسری یہ کہ اس کائنات کا پیداکرنے والا ایک حکیمِ کامل بھی ہے‘ اس لیے کہ اس نے جو کچھ تخلیق فرمایا ہے اس میں ہر چیز حکمت سے پُر ہے اور کوئی چیز بے مقصد اور بلاغایت نہیں ہے‘حتیٰ کہ گھاس کا ایک تنکا بھی بے کار اور عبث نہیں ہے. پس معلوم ہوا کہ کائنات کے مشاہدے اور اس پر غورو فکر کے نتیجے میں ایک ہوش مند اور باشعور انسان کا ذہن وجودِ باری تعالیٰ اور اس کی صفاتِ کمال تک پہنچ جاتا ہے. چنانچہ یہی مفہوم ہے سورۂ آل عمران کے بیسویں رکوع کی پہلی اور مختصر آیت اور سورۃ البقرۃ کے بیسویں رکوع کی پہلی اور طویل آیت کا جس کا پہلے حوالہ دیا گیا ہے.
خلاصۂ کلام یہ کہ سورۂ آل عمران کے آخری رکوع کی پہلی آیت کے مطابق مظاہرِ فطرت پر تفکر و تدبّر کے نتیجے میں ایک ہوش مند اور باشعور انسان کے ہاتھ میں اس کائنات کی گتھی سلجھانے کے لیے الجھی ہوئی ڈور کا جو سرا آتا ہے وہ ہے معرفت ِ ربّ‘ یعنی اس حقیقت کا شعور و ادراک کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے جو اپنی ذات میں یکہ و تنہا اور بے مثل وبے نظیر بھی ہے اورکمالِ علم‘ کمالِ قدرت اورکمالِ حکمت سے متصف بھی. ابھی اس الجھی ہوئی ڈور کومزید سلجھانا ہے تو لازم ہے کہ وہ ہوش مند اور باشعور انسان الجھی ہوئی ڈور کے اس سرے کو ہاتھ سے نہ چھوڑے‘ ورنہ ساری محنت ضائع ہو جائے گی. چنانچہ یہی ربط ہے کہ اگلی آیت میں ان دانش مند لوگوں کا یہ وصف بیان ہوا اور ان کی کیفیت کا یہ نقشہ کھینچا گیا کہ:
الَّذِیۡنَ یَذۡکُرُوۡنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوۡدًا وَّ عَلٰی جُنُوۡبِہِمۡ وَ یَتَفَکَّرُوۡنَ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ
’’وہ لوگ جو اللہ کو یاد رکھتے ہیں کھڑے ہوئے بھی‘ بیٹھے ہوئے بھی اور اپنے پہلوؤں کے بل (لیٹے ہوئے) بھی‘ اور (مزید) غور و فکر کرتے ہیں آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں‘‘.
اِن الفاظِ مبارکہ کا مفہوم و مدعا یہ ہوا کہ جب ان اولوالالباب نے کتابِ فطرت کے مطالعے‘ مظاہرِ قدرت کے مشاہدے اور اپنے غور و فکر اور تعقّل و تفکر سے اللہ کو پہچان لیاتو پھر وہ ہر دم اور ہر لحظہ اللہ کو یاد رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کے ذہن و قلب میں ہرآن مستحضر رہتا ہے (اس لیے کہ ذکر اللہ کے معنی ’’استحضار اللّٰہ فی القلب‘‘ ہیں‘یعنی دل میں اللہ کی یاد موجود رہے) اور اس سرے کو مضبوطی کے ساتھ ہاتھ میں تھام کر وہ کائنات کے ’’معمے‘‘ کو مزید حل کرنے اور اس الجھی ہوئی ڈور کو مزید سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں غور و فکر اور تعقّل و تفکر کا عمل جاری رکھتے ہیں!