آگے بڑھنے سے قبل توجہ کو ذرا اِدھر مبذول کر لیا جائے تو مناسب ہوگا کہ یہاں ’’ذکر و فکر‘‘ جس طرح یکجا صورت میں سامنے آئے ہیں اس کی بڑی اہمیت ہے‘ کیونکہ انسان کے غور و فکر کا عمل صحیح رُخ پر اُسی وقت آگے بڑھے گا جب یہ دونوں چیزیں بیک وقت موجود ہوں‘ اس لیے کہ یہ دونوں ایک گاڑی کے دو پہیوں کی مانند ہیں. گاڑی ایک پہیے پر نہیں چلے گی ‘بلکہ اس کے دونوں پہیوں کو لا محالہ حرکت کرنا ہوگی. گویا ذکربھی ہو اور فکربھی ہو‘ یہ دونوں ضروری اور لازمی ہیں. بدقسمتی سے ہمارا موجودہ المیہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں دو حلقے جدا جدا ہو گئے ہیں. کچھ لوگ وہ ہیں جو ذکر کے تو لذت آشنا ہیں لیکن فکر کے میدان میں قدم نہیں رکھتے‘ جبکہ کچھ لوگ وہ ہیں جو غور و فکر کی وادی میں تو سرگرداں رہتے ہیں لیکن ذکر کی لذت سے محروم رہتے ہیں‘ گویا دونوں چیزیں علیحدہ علیحدہ ہو گئی ہیں. یہی وجہ ہے کہ مطلوبہ نتائج پیدا نہیں ہو رہے. مولانا رومؒ نے اِس حقیقت کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا ہے : ؎
ایں قدر گفتیم باقی فکر کُن!
فکر اگر جامد بود رو ذکر کُن!
’’اتنا تو ہم نے تمہیں بتا دیا‘ آگے خود سوچو‘ غور و فکر کرو ‘اور اگر فکر میں کہیں رکاوٹ پیدا ہو جائے اور تم محسوس کرو کہ وہ جامد ہو رہا ہے تو جاؤاور مزید ذکرکرو!‘‘
آگے فرماتے ہیں : ؎
ذکر آرد فکر را در اہتزاز
ذکر را خورشید ایں افسردہ ساز
’’اس ذکر سے فکر میں ایک حرکتِ تازہ پیدا ہوگی اوروہ صحیح رُخ اور صحیح سمت میں آگے بڑھے گا. ذکر تو آفتاب کے مانند ہے‘ وہ فکر کی افسردگی کو دُورکرے گا‘‘.
یہی بات علامہ اقبال نے بڑی خوبصورتی سے کہی ہے : ؎
جز بہ قرآں ضیغمی روباہی است
فقرِ قرآں اصل شاہنشاہی است
فقرِ قرآں؟ اختلاطِ ذکر و فکر!
فکر را کامل نہ دیدم جز بہ ذکر!
’’قرآن کے بغیر شیر بھی گیدڑ بن جاتا ہے. اصل شاہنشاہی قرآن کے تعلیم کردہ فقر میں ہے. جانتے ہو فقرِ قرآنی کیا ہے؟ یہ ذکر و فکر دونوں کے مجموعے سے وجود میں آتا ہے اور حقیقت یہی ہے کہ ذکر کے بغیر فکر مکمل نہیں ہوسکتا‘‘.
آیت زیر مطالعہ میں ذکر کی اہمیت کو انسان کی ان تین حالتوں کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے جن سے وہ امکانی طورپر دوچار رہتا ہے یعنی کھڑے ہو ئے‘ جس میں چلنا آپ سے آپ شامل ہے. بیٹھے ہوئے‘ جس میں مشغول ہونا بھی شامل ہے‘ اور پہلوؤں پر لیٹے ہوئے ‘جس میں نیند اور بیداری دونوں صورتوں کی استراحت شامل ہے. گویا یہ اولوالالباب اللہ کی یاد کا ہر حال میں اہتمام و التزام کرتے ہوئے کائنات کے عقدے کو حل کرنے کے لیے غور و فکر جاری رکھتے ہیں. واضح رہے کہ یہاں ذکر سے مراد یہ ہے کہ زبان سے اللہ کی تحمید‘ تسبیح‘ تہلیل اور تمجید کے کلماتِ مسنونہ کی ادائیگی بھی جاری رہے اور دل میں اللہ کے حاضر و ناظر‘ سمیع و بصیر‘ علیم و خبیر اور حفیظ و رقیب (نگران) ہونے کا یقین بھی موجود رہے. اور اس کیفیت کے دوام کے ساتھ ہی وہ کائنات کی تخلیق میں غور و فکر بھی کرتے رہتے ہیں.