ذکر و فکر کے اس اختلاط سے وہ اولوالالباب جس نتیجے تک پہنچتے ہیں‘ اس کو آگے بایں الفاظ بیان فرمایا: رَبَّنَا مَا خَلَقۡتَ ہٰذَا بَاطِلًا ۚ سُبۡحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ﴿۱۹۱﴾ ’’(وہ پکار اٹھتے ہیں کہ) اے ہمارے ربّ! تو نے یہ سب کچھ بے مقصد (بلاغایت اور بے کار) پیدا نہیں کیا. توپاک ہے (منزّہ ہے‘ اعلیٰ ہے‘ ارفع ہے اس سے کہ کوئی کارِ عبث کرے) پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا!‘‘
یہاں قدرے تشریح و توضیح کی ضرورت ہے. ان اولوالالباب کے سامنے ان کے ذکر و فکر کے نتیجے میں جو حقیقت ِ کبریٰ پورے جزم و یقین کے ساتھ ابھر کر آتی ہے وہ یہ ہے کہ جب اس کائنات کی کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ چیز بھی بے مقصد پیدانہیں کی گئی ہے تو کیسے ممکن ہے کہ یہ کُل کائنات بحیثیتِ مجموعی اور خاص طور پر اس کا نقطۂ عروج یعنی انسان بے مقصد پیدا کیا گیا ہو اور اس کے افعال و اعمال کا کوئی نتیجہ نہ نکلے؟ چنانچہ یہیں سے اُن کا ذہن مجازات و مکافاتِ عمل اور جزا و سزا کے تصور کی طرف منتقل ہو جاتا ہے. قارئین کو یاد ہوگا کہ یہ بات اس سے قبل سورۂ لقمان کے دوسرے رکوع میں حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کو نصیحت کے ضمن میں آ چکی ہے:
یٰبُنَیَّ اِنَّہَاۤ اِنۡ تَکُ مِثۡقَالَ حَبَّۃٍ مِّنۡ خَرۡدَلٍ فَتَکُنۡ فِیۡ صَخۡرَۃٍ اَوۡ فِی السَّمٰوٰتِ اَوۡ فِی الۡاَرۡضِ یَاۡتِ بِہَا اللّٰہُ ؕ (آیت ۱۶)
’’اے میرے بچے! (اس حقیقت کو اچھی طرح ذہن نشین کر لے کہ انسان کا کوئی عمل خواہ نیکی کا ہو یا بدی کا) خواہ وہ رائی کے دانے کے برابر ہو‘ پھر خواہ وہ کسی چٹان (کے پیٹ) میں گھس کر کیا گیا ہو‘ خواہ آسمانوں (کی پہنائیوں) میں خواہ زمین (کی وسعتوں) میں‘ اللہ اسے لا حاضر کرے گا.‘‘
لہذا عقل کا تقاضا یہ ہے کہ ؏ ’’گندم از گندم بروید جوزِ جو‘‘ کے مصداق نیکی کے نتائج اچھے نکلیں اور بدی کے نتائج برے نکلیں. لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ دنیامیں اکثر وبیشترمعاملہ الٹاہوتاہے. چنانچہ نیکوکاروں کے لیے یہاں مصائب و تکالیف ہیں اور بدکاروں اورحرام خوروں کے لیے عیش و آرام! آپ ذرا سی دیرکو فیصلہ کر کے دیکھ لیجیے کہ مجھے کسی حال میں جھوٹ نہیں بولنا. معلوم ہوگا کہ زندگی اجیرن ہو گئی ہے. اسی طرح ذرا حرام و حلال کی حدود پر کاربند ہو نے کا فیصلہ کر کے دیکھ لیجیے‘ دو وقت کے کھانے کے لالے پڑ جائیں گے. اس کے برعکس جن لوگوں کے نہ کچھ اصول ہیں‘ نہ مستقل اقدارہیں‘ نہ ہی وہ کسی قسم کی اخلاقی حدود و قیود کے پابند ہیں‘ بلکہ ان کو جہاں بھی موقع ملتاہے وہ دست درازی سے نہیں چوکتے‘ان کے یہاں عیش و آرام ہے‘ ان کے اوراُن کے اہل و عیال کے لیے تمام دُنیوی سہولتیں وافر مقدار میں مہیا ہیں. اِن حقائق و واقعات کے مشاہدے سے ہرباشعور اور حساس انسان کے ذہن میں چند سوالات ابھرتے ہیں کہ آیا یہ دنیااور اس کی تخلیق ناقص ہے؟ یا یہ خیال کہ ’’نیکی نیکی ہے اور بدی بدی ہے‘‘ صرف ہمارے ذہن کی اختراع ہے جس کا حقیقت ِ نفس الامری سے کوئی تعلق نہیں؟
ایک سلیم الفطرت اورصحیح العقل انسان اِن سوالات پر جس قدر غور کرتا ہے‘ اسے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ایک جانب اس کی عقل پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ یہ عظیم کائنات ایک علیم و خبیر‘ عزیز و قدیر اور حلیم و دانا ہستی کی سنجیدہ اوربامقصد تخلیق ہے اور دوسری جانب اس کی فطرت یہ قطعی اور حتمی فیصلہ کرتی ہے کہ نیکی و بدی اور خیر و شر کی اقدار حقیقی و واقعی بھی ہیں اورمستقل اور پائیدار بھی. گویا نیکی نیکی ہے اور بدی بدی ہے اور دونوں ہر گزبرابر نہیں ہیں. از روئے الفاظِ قرآنی: وَ لَا تَسۡتَوِی الۡحَسَنَۃُ وَ لَا السَّیِّئَۃُ ؕ (حٰمٓ السجدۃ:۳۴) ’’اور ہر گز برابر نہیں ہے نہ نیکی اور نہ بدی!‘‘
الغرض عقل اور فطرت دونوں کا تقاضا ہے کہ دنیا کی اس زندگی کے بعد ایک اور زندگی ہونی چاہیے جس میں اخلاقی نتائج بھرپور طورپر برآمد ہوں‘ چنانچہ نیکوکاروں کو ان کی نیکیوں کا بھرپور صلہ ملے اور بدکاروں کو اُن کی بدی کی بھرپور سزا ملے. یہ بات سورۃ القلم میں بایں الفاظِ مبارکہ فرمائی گئی :
اَفَنَجۡعَلُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ کَالۡمُجۡرِمِیۡنَ ﴿ؕ۳۵﴾مَا لَکُمۡ ٝ کَیۡفَ تَحۡکُمُوۡنَ ﴿ۚ۳۶﴾
’’کیا ہم فرماں برداروں اور مجرموں کو برابر کردیں گے؟ تم لوگوں کو کیا ہوگیا ہے؟ تم کیسی (غیر معقول) رائے قائم کر رہے ہو؟‘‘
چنانچہ یہ ہے ایمان باللہ سے ایمان بالآخرۃ تک کا عقلی سفر کہ جب اولوالالباب اللہ کو یاد رکھتے ہوئے تخلیقِ کائنات پر غور و فکرکرتے ہیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یہاں کوئی شے بے مقصد‘ بے کار‘ عبث اور بلاغایت نہیں ہے تو پھر کیسے ہو سکتا ہے کہ ہماری فطرت اورہمارے باطن میں نیکی اور بدی اور بِرّ و تقویٰ اور فسق و فجور کا جو شعور موجود ہے وہ بے نتیجہ اور لاحاصل رہے. اس دنیا میں ان کا منطقی اور معقول نتیجہ نہیں نکل رہا‘ لہذا لازماً ایک دوسری زندگی ہونی چاہیے جس میں نیکی اور بدی کے بھرپور نتائج برآمد ہوں‘ نیکوکاروں کو جزا اور بدکاروں کو سزا ملے. جب یہ لوگ اس عقلی نتیجے تک پہنچ جاتے ہیں تو وہ اللہ کے سامنے گھٹنے ٹیک کر استدعا کرتے ہیں:
رَبَّنَا مَا خَلَقۡتَ ہٰذَا بَاطِلًا ۚ سُبۡحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ﴿۱۹۱﴾رَبَّنَاۤ اِنَّکَ مَنۡ تُدۡخِلِ النَّارَ فَقَدۡ اَخۡزَیۡتَہٗ ؕ وَ مَا لِلظّٰلِمِیۡنَ مِنۡ اَنۡصَارٍ ﴿۱۹۲﴾
’’اے ربّ ہمارے! تو نے یہ سب کچھ بے مقصدپیدا نہیں کیا. تو پاک ہے (کہ کوئی عبث کام کرے) پس تو ہمیں(آخرت میں) آگ کے عذاب سے بچائیو. اے ربّ ہمارے! (اس آخرت کی زندگی میں) جسے بھی تو نے آگ میں جھونک دیااسے تو بدرجۂ کامل ذلیل و رسوا کر دیا .اور (ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ وہاں) ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہوگا‘‘.
حاصلِ کلام یہ کہ اِن آیات میں خلاصہ ہے ایمان باللہ اور ایمان بالآخرۃ کے عقلی سفر کا. یہ قرآن حکیم کا وہ مظہری استدلال ہے جو قرآن مجید کی طویل مکی سورتوںمیں تو نہایت شرح و بسط کے ساتھ طویل مباحث کی صورت میں سامنے آتا ہے‘ لیکن اس مقام پر اِن تین آیات میں جس جامعیت کے ساتھ سمو دیا گیا ہے اس کی کوئی دوسری نظیر میرے محدود مطالعے کی حد تک قرآن حکیم میں موجود نہیں ہے. چنانچہ واقعہ یہ ہے کہ اِن آیاتِ مبارکہ کی عظمت و جامعیت کا بیان ایک مختصر صحبت میں قطعاً ممکن نہیں ہے‘ تاہم امید ہے کہ ان گذارشات کے ذریعے ان کے جلال و جمال کی ایک ادنیٰ جھلک ضرور سامنے آگئی ہوگی اور اصولاً یہ حقیقت منکشف ہو گئی ہو گی کہ اللہ پر ایمان اور آخرت پر ایمان کے ضمن میں قرآن حکیم کا اپنا مخصوص طرزِ استدلال کیا ہے اور وہ تلاشِ حق کے ضمن میں غور و فکر کے لیے کون سا راستہ تجویز کرتا ہے. اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس راہ سے یقینِ محکم عطا فرمائے. آمین!