مذکورہ بالا تین آیات (۱۹۰ تا ۱۹۲) کے بارے میں حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمہ اللہ علیہ کا قول جو نہ صرف ایک بہت بڑے عالم‘ محقق اور مفسر تھے بلکہ نہایت عظیم مجاہد اور مردِ میدان بھی تھے‘ یہ ہے کہ ان میں ’’ایمانِ عقلی‘‘ کا بیان ہے. یعنی ایک سلیم الفطرت انسان جب اپنی عقلِ صحیح کی رہنمائی میں ذہنی و فکری سفر طے کرتا ہے تو کتابِ فطرت کے مطالعے اور مظاہرِ قدرت کے مشاہدے اور اپنے تعقّل و تدبّر اور تذکر و تفکر سے ایمان باللہ اور ایمان بالآخرۃ تک رسائی حاصل کر لیتا ہے.
اب ہم اس سبق کی بقیہ تین آیات (۱۹۳ تا ۱۹۵) کا مطالعہ کرتے ہیں.حضرت شیخ الہند کے قول کے مطابق ان میں سے پہلی آیت (۱۹۳) میں ’’ایمانِ سمعی‘‘ کا ذکر ہے‘ یعنی وہ اولوالالباب جو اپنے ذہنی و فکری سفر کے نتیجے میں اس مقام تک پہنچ جاتے ہیں جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے.جب ان کے کانوں تک کسی نبی کی دعوت پہنچتی ہے جو انہی امور پر مشتمل ہوتی ہے کہ مانو اِس حقیقت کو کہ اس کائنات کا ایک خالق و مالک ہے جو ہر چیز پر قادر بھی ہے اور ہر چیز کا علم بھی رکھتا ہے‘ وہ العزیز بھی ہے اور الحکیم بھی اور مانو اِس حقیقت کو کہ انسان کی زندگی صرف اس دنیا کی زندگی نہیں ہے اور موت زندگی کے خاتمے کا نام نہیں ہے‘ بلکہ ؎
’’موت اِک زندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے بڑھیں گے دَم لے کر !‘‘
کے مصداق اصل زندگی تو موت کے بعد شروع ہوگی. از روئے الفاظِ قرآنی:
وَ اِنَّ الدَّارَ الۡاٰخِرَۃَ لَہِیَ الۡحَیَوَانُ ۘ لَوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۶۴﴾ (العنکبوت) ’’اوراصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے‘ کاش کہ انہیں معلوم ہوتا‘‘. اُس زندگی میں اس دنیا کی زندگی کے اعمال کے بھرپور نتائج نکلیں گے‘ چنانچہ یا ابدی عیش و آرام ہوگا یا ہمیشہ کی عقوبت و عذاب. ان امور پر مشتمل جب کسی نبی کی دعوت ان اولوالالباب کے کانوں تک پہنچتی ہے تو فطری او ر منطقی طو ر پر ایسے لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ نبی کی وعوت پر والہانہ لبیک کہتے ہیں اوربالکل اس کیفیت کے ساتھ اس کی تصدیق کرتے ہیں جو اِس شعر میں سامنے آتی ہے کہ : ؎
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اُس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں تھا
اس موقع پر ان کے احساسات و جذبات کی جو کیفیت ہوتی ہے اسے الفاظ کا جامہ پہنا کر ایک دعا کی صورت میں ان آیاتِ مبارکہ میں ہمارے سامنے رکھ دیا گیا ہے کہ :
’’اے ربّ ہمارے! ہم نے سنا ایک پکارنے والے (کی پکار )کو کہ وہ ایمان کی منادی کر رہا ہے کہ ایمان لاؤ اپنے ربّ پر‘ پس ہم ایمان لے آئے‘ تو اے ہمارے ربّ (ہماری اب تک کی زندگی میں جو خطائیں ہم سے سرزد ہوئی ہیں اور جو کوتاہیاں صادر ہوئی ہیں ان سے درگذر فرما اور) ہمارے گناہ معاف فرما دے اور ہم سے (ہمارے دامنِ کردار اور نامۂ اعمال کی ) ہماری برائیوں کو دور فرما دے‘ اور جب تو ہمیں وفات دے تو (اپنے) نیکوکار بندوں کی معیت عطا فرمائیو ! اے ربّ ہمارے! اورہمیں وہ سب کچھ عطا کیجیوجس کا وعدہ تو نے ہم سے اپنے رسولوں کی وساطت سے کیا ہے اور قیامت کے دن ہمیں رسوا نہ کیجیو! یقینا تو اپنے وعدے کی خلاف ورزی کرنے والا نہیں‘‘. (آیات ۱۹۳‘۱۹۴) یہ ایک نہایت عظیم دعا ہے اورعجب حسن اتفاق ہے کہ سورۃ البقرۃ اور سورۂ آلِ عمران کے مابین جو بہت سے اُمور مشابہت کے ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ سورۃ البقرۃ کے اختتام پر بھی ایک عظیم دعا وارد ہوئی ہے. اسی طرح یہ عظیم دعا ہے جو سورۂ آل عمران کے آخری رکوع میں وارد ہوئی ہے.
اِس موقع پر دعا کی حقیقت اور اہمیت کو بھی سمجھ لیا جائے تو بہتر ہوگا. کسی سابقہ درس میں یہ احادیث بیان ہو چکی ہیں کہ دعا عبادت کا جوہر ہے‘ بلکہ دعا ہی عبادت ہے. درحقیقت دعا اس نسبت کو ظاہر کرتی ہے جو بندے اور ربّ کے مابین ہے اور عبد اور معبود کے مابین تعلق دعا ہی کے ذریعے استوار اور مستحکم ہوتا ہے . مزید برآں دعا ایمان اور یقین کامظہرِ اَتم ہے‘ اس لیے کہ جب بندہ اللہ سے دعا کرتا ہے تو ثابت ہوتا ہے کہ وہ اللہ کو سمیع و بصیر اور مجیب الدعوات ہی نہیں‘ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ بھی سمجھتا ہے‘ تب ہی تو اس سے اپنی حاجت روائی اور مشکل کشائی کی استدعاکر رہا ہے.