مبارکہ سنائی گئی: فَاسۡتَجَابَ لَہُمۡ رَبُّہُمۡ..... ’’پس اُن کے ربّ(اُن کے آقا‘ اُن کے مالک )نے اُن کی دعا قبول فرما لی‘‘.
یہ بالکل ایسی کیفیت ہے جیسی فارسی کے اس شعرمیں بیان ہوئی ہے : ؎

بترس از آہِ مظلوماں کہ ہنگامِ دعا کردن
اجابت از درِ حق بہرِ استقبال می آید
اس شعر کا اردو ترجمہ شعر ہی کی صورت میں کیا گیا ہے : ؎
ڈرو مظلوم کی آہوں سے جب اٹھتی ہیں سینوں سے
قبولیت ہے کرتی خیر مقدم چرخ سے آ کر!

تو اِن صدیقین کی دعا کا جواب گویا فوری طور پر مل رہا ہے. اِدھر دعا زبان سے نکلی‘ اُدھر اسے شرفِ قبولیت عطا ہو گیا. فرمایا: 
فَاسۡتَجَابَ لَہُمۡ رَبُّہُمۡ اَنِّیۡ لَاۤ اُضِیۡعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنۡکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ اَوۡ اُنۡثٰی ۚ بَعۡضُکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡضٍ ۚ 
’’پس ان کی دعا کو قبول فرما یا اُن کے ربّ نے کہ میں تو تم میں سے کسی بھی عمل کرنے والے کے کسی عمل کوضائع نہیں کرتا خواہ وہ (عمل کرنے والا) مردہو‘ خواہ عورت ہو. تم سب ایک دوسرے ہی سے ہو‘‘.

غور فرمائیے کہ آیت کے اس چھوٹے سے ٹکڑے میں مَرد اور عورت کے مابین اخلاقی‘ دینی اور روحانی مساوات کا اہم اصول بھی بیان فرما دیا گیا کہ دونوں جان لیں کہ اگرچہ تمہاری اصناف جدا جدا ہیں‘لیکن یہ جسمانی اور نفسیاتی فرق و تفاوت تو تمدنی ضرورت کے تحت ہے‘ ورنہ انسان ہونے کے اعتبار سے جیسے تمہاری نوع ایک ہے اسی طرح سے تمہاری اخلاقی اور دینی حیثیت بھی یکساں اور 
مساوی ہے. دین میں‘ نیکی میں‘ خیر میں اور دین کے لیے مالی اورجانی قربانیاں دینے میں اور ان کے اجر و ثواب میں مَردوں اور عورتوں میں کوئی تفاوت نہیں ہے. مَردوں کے لیے بھی میدان کھلا ہے اور عورتوں کے لیے بھی. مَردوں کے اپنے اعمال ہیں‘ ان کی اپنی نیکیاں ہیں‘ ان کی اپنی کمائی ہے اور عورتوں کے اپنے اعمال ہیں‘ ان کی اپنی نیکیاں ہیں‘ ان کی اپنی کمائی ہے. دونوں کو میری بارگاہ سے ان کے ہر ہر عمل کا بھرپور بدلہ ملے گا. میں ان کا چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی ضائع کرنے والا نہیں ہوں.