اب اس تمثیل پر غور کیجیے جو اس آیتِ مبارکہ میں بیان ہوئی ہے. ارشاد ہوتا ہے: اَللّٰہُ نُوۡرُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ ’’آسمانوں اور زمین کی روشنی اللہ ہی ہے‘‘. ظاہر الفاظ سے یہاں ایک مغالطہ لاحق ہو جاتا ہے کہ شاید یہاں’’نور‘‘ کا اطلاق باری تعالیٰ کی ذات پرہو رہا ہے. اس مغالطے سے بچنے کی بڑی ضرورت ہے. ذاتِ باری تعالیٰ کے متعلق یہ بات ہمیں معلوم ہونی چاہیے کہ‘ بقول حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ‘ وہ وراء الوراء ‘ثم وراء الوراء‘ ثم وراء الوراء ہے. یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات کا علم ہمارے فہم و شعور‘ احساس و ادراک‘ فکر و نظر ‘حتیٰ کہ تصور و تخیّل کی سرحدوں سے بہت دُور اور پرے ہے. بقول غالب : ؏ 
’’ہے پرے سرحدِ ادراک سے اپنا مسجود!‘‘

یا بقول شخصے : ؏ 
’’اے بروں از وہم وقیل وقالِ من!‘‘

یا بقول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ : 
’’العَجزُ عَن درکِ الذّاتِ اِدراک ‘‘ یعنی اللہ کی ذات کے ادراک سے عاجز ہونے کا اقرار و اعتراف ہی اصل ادراک ہے. گویا’’معلومم شد کہ ہیچ معلوم نہ شد!‘‘ یعنی جب انسان یہ جان لیتا ہے کہ میں اللہ کی ذات کو نہیں جان سکتا تو یہی کمالِ عرفان ہے. یہی بات ایک دوسرے اسلوب سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمائی کہ : ’’وَالبحثُ عن کُنہِ الذاتِ اِشراک‘‘ یعنی اللہ کی ذات کے بارے میں بحث اور کھود کرید سے انسان شرک اور فتنہ میں مبتلا ہو جائے گا. الغرض اس حقیقت کو ذہن نشین کرنا بہت ضروری ہے کہ آیت ِ زیر درس میں وارد شدہ تمثیل اللہ کی ذات کے لیے نہیں بلکہ اس پر ایمان کی حقیقت کے بیان کے لیے ہے‘ گویا نور کے لفظ کا اطلاق ذاتِ باری تعالیٰ پر نہیں‘ ایمان باللہ پر ہے.

اس ضمن میں امام رازیؒ نے اپنی تفسیر کبیر میں بڑی عمدہ بات کہی ہے کہ نور لامحالہ کوئی مادی شے ہے یا کوئی عارضی کیفیت‘ اور ان دونوں کی نسبت باری تعالیٰ پر نہیں ہے‘ جیسا کہ عہد حاضر کے بعض مفسرین و مترجمینِ قرآن نے گمان کیا ہے. اس کی ایک قطعی اور حتمی دلیل اس آیت ِ مبارکہ کے الفاظ میں موجودہے. چنانچہ اس میں دو مرتبہ ’’نُورِہٖ‘‘کے الفاظ آئے ہیں. یہ مرکب اضافی ہے. جب کسی شے کی اضافت کسی کی طرف کی جاتی ہے تو وہ شے اس کا غیرہوتی ہے. جیسے میں کہوں ’’میرا قلم‘‘ تو اس میں’’قلم‘‘ علیحدہ ہے اور ’’میں‘‘ علیحدہ ہوں ‘اور نسبت ِ اضافی میرے اور قلم کے مابین ہے. تو ’’نُورِہٖ‘‘ کے معنی ہیں ’’اس کا (یعنی اللہ کا) نور‘‘. لہذا نور کا اطلاق ذاتِ باری تعالیٰ پر درست نہیں ہے. اس کی ایک دوسری دلیلِ قطعی سورۃ الانعام کی پہلی آیتِ مبارکہ میں موجود ہے‘ جس سے ثابت ہو جاتا ہے کہ نور سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات نہیں ہو سکتی.ارشادِ الٰہی ہے: 

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوۡرَ ۬ؕ 
’’تمام شکر و سپاس اورتمام ثناء و تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے پیداکیے آسمان اور زمین اور بنائے اندھیرے اور روشنی‘‘.

ثابت ہو گیا کہ نور ’’مجعول‘‘ یعنی بنائی ہوئی شے ہے اور ظاہر بات ہے کہ باری تعالیٰ کی ذات ِ گرامی کو مجعول نہیں کہا جا سکتا.

اب نور کو سمجھئے! ہم جس نور سے واقف ہیں وہ ’’نورِ خارجی‘‘ ہے‘یعنی خارجی روشنی. یہ نور یا روشنی اصل میں اشیاء کے ظہور کا ذریعہ بنتی ہے. فرض کیجیے کہ ہم سب ایک ایسے کمرے میں موجود ہیں جہاں برقی قمقموں کی روشنی کا سیلاب آیا ہوا ہے. کمرہ خوب روشن ہے اور جگمگا رہا ہے. اس صورت میں اس روشنی کے ذریعے ہم سب ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں‘ لیکن کسی سبب سے فیوز اُڑجائے اور روشنی چلی جائے تو ہم ایک دوسرے کو دیکھ نہیں سکیں گے ‘درانحالیکہ ہم سب کی آنکھوں میں دیکھنے کی صلاحیت موجود رہے گی. گویا اشیاء کا ظہور بواسطۂ نور ہو رہا ہے. یہ ہے ہماری بصارتِ ظاہری جس کا ذریعہ بنتا ہے ایک مادی اور خارجی نور. اسی طرح ایک نور باطنی ہے جس سے حقائقِ اشیاء ظاہر ہوتے ہیں. جیسے نبی اکرم کی ایک دعا منقول ہوئی ہے کہ : 
اَللّٰہُمَّ اَرِنِیْ حَقِیْقَۃَ الْاَشْیَاءِ کَمَاہِیَ ’’اے اللہ! مجھے اشیاء کی حقیقت دکھا جیسی کہ وہ فی الواقع ہیں‘‘. شاید اسی سے شاعر نے خیال مستعار لے کر کہا ہے : ؎

اے اہلِ نظر ذوقِ نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا!

تو وہ جو ایک بصیرتِ باطنی ہے‘ اسے ایک نورِ باطنی کی ضرورت ہے اور وہ نورِ باطنی ہے نورِ معرفت ِ خداوندی . اسی نورِ معرفت ِ خداوندی کا ذکر سورۃ البقرۃ میں آیت الکرسی کے بعد دوسری آیت میں ہے: 

اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۙ یُخۡرِجُہُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ۬ؕ (آیت ۲۵۷’’اللہ اہل ایمان کا دوست ہے‘ ان کو نکالتا ہے اندھیروں سے روشنی کی طرف‘‘.

گویا اللہ کو پہچان لیا تو اس کائنات کے جملہ حقائقِ کونیہ روشن ہو جائیں گے اور حقائقِ تکوینی کے ساتھ ساتھ حقائقِ تشریعی بھی اپنے جملہ اَسرار و حِکم کے ساتھ منور ہو جائیں گے اور ہر شے کی حقیقت نظر آنے لگے گی. چنانچہ یہ جملہ حقائق منکشف ہو جائیں گے کہ آغاز کیا ہے اور اختتام کیا ہے؟ وجود کی ماہیت کیا ہے؟ موت کی حقیقت کیا ہے؟ خیر کی حقیقت کیا ہے؟ شر کی حقیقت کیا ہے؟ علم کسے کہتے ہیں؟ مجازات و مکافات کیوں ضروری ہیں؟ یہ ساری چیزیں انسان کو معلوم ہو جائیں گی اگر وہ اللہ کو جان لے اور اس کو پہچان لے. جس طرح ہماری بصارتِ ظاہری کے لیے نورِ خارجی ضروری ہے‘ اسی طرح بصیرت ِ باطنی کے لیے نورِ معنوی ضروری ہے‘ جو عبارت ہے معرفتِ خداوندی یا ایمان باللہ سے.