اب ذرا دیکھئے ‘یہ کن لوگوں کا ذکرہے؟ اور ان تسبیح و تحمید میں مشغول لوگوں کی اصل شان کیا ہے؟ فرمایا:
رِجَالٌ ۙ لَّا تُلۡہِیۡہِمۡ تِجَارَۃٌ وَّ لَا بَیۡعٌ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ اِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَ اِیۡتَآءِ الزَّکٰوۃِ ۪ۙ
’’وہ (جواں ہمت) لوگ جنہیں غافل نہیں کر سکتی کوئی تجارت اور نہ کوئی خرید و فروخت اللہ کے ذکر سے اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے سے ‘‘.
پہلے تو یہ سمجھ لیجیے کہ یہاں ’’رِجَال‘‘ سے مراد صرف مرد ہی نہیں ہیں بلکہ اس میں خواتین بھی شامل ہیں اوریہاں یہ لفظ کنایہ کے طورپر آیا ہے‘ اور اس سے مراد ہیں باہمت مَردوزَن. اس لیے کہ اس دنیا میں ایک بندۂ مؤمن کے لیے نمعلوم کتنے دباؤ‘ کتنے موانع ‘ کتنی تحریضات اور کتنی ترغیبات ہیں جن سے اسے مقابلہ کرنا پڑتا ہے‘ اور اگر وہ اللہ کے ساتھ لَو لگائے رکھنا چاہتا ہے تو اسے نہایت شدید اورچومکھی کشمکش سے سابقہ پیش آتا ہے. لہذا اللہ کی یاد سے غافل نہ ہونے کے لیے بڑی مضبوط قوتِ ارادی کی ضرورت ہے‘ ورنہ کہیں تجارت انسان کو غافل کر دے گی اور کہیں کوئی نفع بخش سودا اپنے اندر ’’گُم‘‘ کرلے گا. اس لفظِ’’گُم ‘‘سے بے اختیار ذہن علامہ اقبال کے اس شعر کی طرف منتقل ہوتا ہے کہ : ؎
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گُم ہے
مؤمن کی یہ پہچان کہ گُم اس میں ہیں آفاق!
ایک خدا نا آشنا ا نسان دُنیوی مصروفیتوں اور دلچسپیوں میں گم ہو جاتا ہے‘ لیکن جن لوگوں کا قلب نورِ فطرت اور نورِ وحی سے منور ہو جاتا ہے اور وہ اللہ پر حقیقتاً اور واقعتا ایمان لے آتے ہیں تو اُن کی جو کیفیت ہوتی ہے اسے ان الفاظِ مبارکہ میں بیان کیا گیا ہے:’’ ان( باہمت) لوگوں کو غافل نہیں کر پاتی کوئی تجارت اور نہ کوئی خریدو فروخت اللہ کی یاد سے اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے سے‘‘. یہاں’’تجارت‘‘ عام ہے اور ’’بیع‘‘ خاص ہے. یہ عَطفُ الخاص علی العام کی ایک مثال ہے. ویسے بھی بیع میں فوری طور پر کوئی منفعت پیشِ نظر ہوتی ہے‘ جبکہ تجارت ایک وسیع تر اصطلاح ہے اور اس کا سلسلہ پھیلا ہوا ہوتاہے اوراس میں غیر محسوس طورپر اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے. یہی وجہ ہے کہ یہاں مضمون کی مناسبت سے تجارت پر بیع کا عطف کیا گیا ہے‘ اس لیے کہ جب کوئی سودا ہو رہا ہوتا ہے تو انسان محسوس کرتا ہے کہ اس سودے میں مجھے فوری طور پر کتنا نفع حاصل ہونے کی توقع ہے. لہذا یہ وسوسہ دل میں پیدا ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے کہ اگراذان کی آواز آ گئی ہے تو کیا ہوا؟ ذرا یہ سودا پایۂ تکمیل کو پہنچ جائے تو مسجد کی جانب روانہ ہو جاؤں گا اور اگر جماعت چلی بھی جائے تو میں علیحدہ نماز پڑھ لوں گا‘ لیکن اِس وقت یہ سودا چھوڑنا گھاٹے کا معاملہ ہو جائے گا. لیکن ان باہمت لوگوں کا جن کے قلوب نورِ فطرت اور نورِ وحی سے روشن ہوتے ہیں ‘حال یہ ہوتا ہے کہ ان کو یہ بات اللہ کی یاد سے غافل نہیں کر پاتی. اس موقع پرسورۃ المنٰفقون کے دوسرے رکوع کی پہلی آیت ذہن میں لائیے جس میں فرمایاگیا کہ :
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُلۡہِکُمۡ اَمۡوَالُکُمۡ وَ لَاۤ اَوۡلَادُکُمۡ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ ۚ وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ ﴿۹﴾
’’اے اہل ایمان! تمہیں تمہارا مال اور تمہاری اولاد اللہ کی یاد سے غافل نہ کرنے پائیں ‘اور جو کوئی یہ طرزِ عمل اختیار کرے گا تویقینا وہی خسارے میں رہنے والے ہیں‘‘.
اگر ان میں منہمک اور مشغول ہو کر اللہ کی یاد سے غافل ہو گئے تو جان لو کہ یہ بڑے خسارے کا سودا ہے. ان باہمت لوگوںکو کوئی تجارت اور خرید و فروخت نہ ذکرِالٰہی سے غافل کر سکتی ہے نہ ہی نماز قائم رکھنے اور زکوٰۃ ادا کرنے سے روک سکتی ہے. گویا نہ انسان دُنیوی مصروفیات میں اتنا گم ہو جائے کہ اقامت ِ صلوٰۃ کا اہتمام نہ رہے اور نہ مال کی محبت اس پر اتنی غالب آجائے کہ زکوٰۃ ادا کرنی بھی دوبھر نظر آنے لگے. واضح رہے کہ زکوٰۃ تو اصلاً قلب و نفس پر سے مال کی محبت کی گرہ کھولنے کا ذریعہ ہے‘ ورنہ تزکیۂ نفس کے لیے تو نہ صرف یہ کہ ہر سال نصاب کے مطابق زکوٰۃ دینی لازم ہے بلکہ زکوٰۃ کے علاوہ بھی ابنائے نوع کی حاجت روائی اور مشکلات رفع کرنے کے لیے صدقاتِ نافلہ کا اہتمام لازم ہے. حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: اِنَّ فِی الْمَالِ حَقًّا سِوَی الزَّکٰوۃِ (۱) ’’بلاشبہ تمہارے مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی مستحقین کا حق ہے‘‘. اور بطورِ استشہاد آپﷺ نے آیتِ بِرّ (سورۃ البقرۃ کی آیت ۱۷۷)کا حوالہ دیا ‘ جس کا مطالعہ ہم کر چکے ہیں .یعنی: (۱) سنن الترمذی‘ ابواب الزکاۃ‘ باب ان فی المال حق سوی الزکاۃ. .....وَ اٰتَی الۡمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنَ وَ ابۡنَ السَّبِیۡلِ ۙ وَ السَّآئِلِیۡنَ وَ فِی الرِّقَابِ ۚ وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ ۚ
’’…اور (حقیقی نیکی اس کی ہے) جس نے دیا مال اس کی محبت کے علی الرغم قرابت داروں کو اور یتیموں کو اور مسکینوں کو اور مسافروں کو اور سائلوں کو اور گردنوں کے چھڑانے میں ‘اور قائم کی نماز اور ادا کی زکوٰۃ .‘‘
آگے فرمایا کہ مساجد سے اتنی محبت اور ذکر و شغل کے دوام اور صلوٰۃ و زکوٰۃ کے التزام کے باوصف ان باہمت لوگوں کا معاملہ یہ نہیں ہوتا کہ ان میں اپنی دین داری کا کوئی تکبر‘ کوئی عُجب‘ کوئی پندار اور کوئی گھمنڈ پیدا ہو جائے‘ بلکہ ان تمام حسنات اور اعمالِ صالحہ کے اہتمام کے باوجود ان کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ: یَخَافُوۡنَ یَوۡمًا تَتَقَلَّبُ فِیۡہِ الۡقُلُوۡبُ وَ الۡاَبۡصَارُ ﴿٭ۙ۳۷﴾ ’’وہ اُس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں الٹ جائیں گے دل اور آنکھیں.‘‘ یعنی وہ لرزہ براندام رہتے ہیں‘ کانپتے رہتے ہیں‘ لرزاں وترساں رہتے ہیں اس دن کے خیال سے جس کی ہولناکی کا عالَم یہ ہے کہ اُس دن دل الٹ جائیں گے اور آنکھیں پتھرا جائیں گی. یہ کنایہ اور استعارہ ہے قیامت کی ہیبت اور اس کے شدائد و مصائب کے لیے. وہ دن جس کے لیے سورۃ المزمل میں فرمایا: یَوۡمًا یَّجۡعَلُ الۡوِلۡدَانَ شِیۡبَۨا ﴿٭ۖ۱۷﴾ ’’وہ دن کہ جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا‘‘. یہ باہمت لوگ اللہ سے لو لگانے اور ہر دم اس کی یاد کا التزام کرنے کے باوجود اُس دن کے تصور سے لرزاں و ترساں رہتے ہیں جس دن ہر ابن آدم عدالتِ خداوندی میں محاسبہ کے لیے کھڑا ہو گا.
آگے فرمایا: لِیَجۡزِیَہُمُ اللّٰہُ اَحۡسَنَ مَا عَمِلُوۡا ’’تاکہ اللہ تعالیٰ ان کو جزا دے ان کے بہترین اعمال کی‘‘. یہاں ابتدا میں جو حرف ِجار ’’لام‘‘ آیا ہے اسے لامِ عاقبت کہا جاتا ہے. گویا کہنا یہ مقصود ہے کہ اصحابِ ایمان و یقین کی ان کیفیات کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ اللہ تعالیٰ ان کو بہترین جزا دے گا. قرآن حکیم کے اکثر مترجمین نے ’’اَحۡسَنَ ‘‘ کی نسبت ’’جَزَاء‘‘ سے قائم کی ہے‘ یعنی اللہ انہیں ان کے اعمال کی بہت عمدہ‘ اعلیٰ اور احسن جزا دے گا. لیکن ایک رائے یہ بھی ہے کہ ’’اَحْسَنَ‘‘ کا تعلق ’’مَا عَمِلُوۡا ‘‘ سے ہے‘ اس لیے کہ قرآن حکیم کے بعض دوسرے مقامات پر (جیسے سورۃالنحل کی آیات ۹۶ اور ۹۷) اعمالِ صالحہ کی اُخروی جزا کے ذکر میں ’’اَحْسَنَ‘‘ کے ساتھ حرفِ جار ’’ب‘‘بھی آیا ہے. گویااللہ تعالیٰ اہل جنت کے اجر کا فیصلہ اور اُن کے مرتبہ و مقام کا تعین ان کے بہترین اعمال کی مناسبت سے کرے گا‘ اس لیے کہ اچھے سے اچھے انسان کے بھی تمام اعمال برابر اور مساوی قدر و قیمت کے حامل نہیں ہوتے‘ ان میں کچھ نہ کچھ فرق و تفاوت ضرور ہوتا ہے. پھر یہ کہ ہر انسان سے کچھ نہ کچھ کوتاہیاں اور خطائیں بھی ضرور سرزد ہو جاتی ہیں. عربی کا مشہور مقولہ ہے : اَلْاِنْسَانُ مُرَکَّبٌ مِنَ الْخَطأ وَالنِّسْیَانِ یعنی انسان دو چیزوں کا پتلا ہے‘ اس سے غلطی کا ارتکاب اور خطا کا صدور بھی ہو جاتا ہے اور بھول چوک تو اس کی جبلت اور خمیر ہی میں شامل ہے. لہذا اس کے معنی یہ ہیں کہ ان اعمال میں سے جو بہترین اور چوٹی کے اعمال ہوں گے ان کے اعتبار سے حساب لگایا جائے گا اوران کی جزا ان کے اعلیٰ ترین اعمال کی مناسبت سے مترتب ہوگی. کم تر درجے کے اعمال نظر انداز کر دیے جائیں گے اور جو کوتاہیاں اور خطائیں ہوں گی انہیں اللہ تعالیٰ اپنی شانِ غفاری و رحیمی سے ان کے نامۂ اعمال میں سے حذف کر دے گا. گویا انہیں اپنی شانِ ستاری سے ڈھانپ لے گا. جیسا کہ ہم سورۂ آل عمران کے آخری رکوع کے مطالعے کے دوران دیکھ چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: لَاُکَفِّرَنَّ عَنۡہُمۡ سَیِّاٰتِہِمۡ ’’میں لازماً ان کی برائیوں کو اُن سے دُور کر دوں گا‘‘. جس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ حیاتِ دُنیوی کے دوران ان کے دامنِ کردار کے داغ دھبے دھو دے گا اور ان کے نفوس کا تزکیہ فرما دے گا. اور یہ بھی کہ آخرت میں ان کے نامۂ اعمال کی سیاہی کو دھو دے گا جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ: وَ لَاُدۡخِلَنَّہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ۚ ’’اور میں لازماً ان کو ان باغات میں داخل کروں گا جن کے دامن میں ندیاں بہہ رہی ہوں گی‘‘. یا جیسے سورۂ ھود میں یہ اصول بیان فرمایا: اِنَّ الۡحَسَنٰتِ یُذۡہِبۡنَ السَّیِّاٰتِ ؕ (آیت ۱۱۴) ’’یقینا بھلائیاں برائیوں کومحو کر دیتی ہیں‘‘. لہذا ان باہمت لوگوں کا آخرت میں جو مقام اور مرتبہ معین ہوگا وہ ان کے اعلیٰ اور احسن اعمال کی نسبت و مناسبت اور اعتبار سے ہوگا.
آگے بڑھنے سے پہلے یہ اصول سمجھ لیجیے کہ جیسے دنیا میں اُجرت محنت و مشقت کی نسبت سے ملتی ہے ‘اسی طرح آخرت میں اجر اور جزا کامعاملہ تو اعمالِ صالحہ کی مناسبت سے ہی ہوگا ‘خواہ اعلیٰ ترین اعمال ہی کی مناسبت سے ہو. اس پر مزید ہے وہ فضل جو اللہ تعالیٰ خاص اپنی طرف سے عنایت فرمائے گا. چنانچہ فرمایا: وَ یَزِیۡدَہُمۡ مِّنۡ فَضۡلِہٖ ؕ ’’اور اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فضل سے مزید عطا فرمائے گا‘‘. واضح رہے کہ یہ فضل کسی محنت کا صلہ نہیں ہوتا ‘بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی دین ہے‘ لہذا یہ کسی حساب کتاب کی پابند نہیں ہے ‘بلکہ یہ اللہ کی شانِ جودوسخا کا ظہور ہے. چنانچہ فرمایا: وَ اللّٰہُ یَرۡزُقُ مَنۡیَّشَآءُ بِغَیۡرِ حِسَابٍ ﴿۳۸﴾ ’’اور اللہ تعالیٰ عطاکرتا ہے جس کو چاہتا ہے بلا حدّ و حساب‘‘. گویا اس کا فضل بلا نہایت ہے اور اس کی کوئی حد نہیں ہے.
اس مقام پر تھوڑا سا توقف فرما کر آج کے سبق کو گزشتہ سبق سے ملا کر ایک حقیقی بندۂ مؤ من یا بقول اقبال ’’مردِ مؤمن‘‘ کی شخصیت کا مکمل نقشہ اپنے ذہن میں قائم کر لیجیے. ہمارا درس ششم سورۂ آل عمران کے آخری رکوع کی ابتدائی چھ آیات پر مشتمل تھا. اس میں بھی ایمان کی ترکیب بیان ہوئی ہے کہ ایمان باللہ‘ ایمان بالآخرۃ اور پھر ایمان بالرسالت کیسے وجود میں آتا ہے. اس کے بعد ایک جامع آیت میں بندۂ مؤمن کے سیرت و کردار کی تصویر کے ایک رُخ کی حیثیت سے سامنے لایا گیا ہے وہ نقشہ جس کے خدّوخال ہیں سعی و جہد‘ ایثار و قربانی‘ جہاد و قتال اور صبر و مصابرت. چنانچہ وہاں الفاظ ہیں:
فَالَّذِیۡنَ ہَاجَرُوۡا وَ اُخۡرِجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمۡ وَ اُوۡذُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِیۡ وَ قٰتَلُوۡا وَ قُتِلُوۡا
’’پس جن لوگوں نے (میرے لیے) ہجرت کی اور اپنے گھروں سے نکالے گئے اور جنہیں میری راہ میں ایذائیں پہنچائی گئیں (تکلیفیں دی گئیں) اورجنہوں نے (میرے لیے) جہاد وقتال کیا اور (میری راہ میں) قتل کردیے گئے.‘‘
یہ ہے بندۂ مؤمن کے سیرت و کردار کی تصویر کا ایک رُخ ‘یعنی جدوجہد‘ کوشش و محنت‘ کشمکش و تصادم‘صبر و ثبات‘ ایثار و قربانی‘ جہاد و قتال حتیٰ کہ جان کا نذرانہ پیش کر دینا. اسی تصویر کا دوسرا رُخ مساجد کے ساتھ ایک قلبی اُنس ‘ ذکر ِ الٰہی کے دوام اور ان کے ساتھ ساتھ اقامتِ صلوٰۃ اور ایتائے زکوٰۃ پر مشتمل ہے ‘اور اس میں ذوق و شوق‘ ذکر و شغل اور انابت و اطاعت پر مستزاد سونے پر سہاگے کی مثال ہے خوف اور خشیت ِ الٰہی‘ جس کی تفصیل اوپر بیان ہو چکی ہے.
جس طرح ہم کہتے ہیں کہ تصویر کے دو رُخ ہوتے ہیں اور تصویر کا صحیح تصور اُن دونوں رُخوں ہی سے مکمل ہوتا ہے‘ اسی طرح اگر بندۂ مؤمن کی شخصیت کا بھی صرف ایک رُخ سامنے رہے گا تو شخصیت بھی یک رُخی رہے گی. چنانچہ اسی کے مظاہر آج ہماری نگاہوں کے سامنے ہیں. اصل میں ایک مردِ مؤمن یا انسانِ مطلوب کی شخصیت کے یہ دونوں رُخ مطلوب ہیں اور اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ایک بندۂ مؤمن کی شخصیت میں یہ دونوں رُخ بیک وقت موجود ہوں. چنانچہ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں میں یہ دونوں رنگ بتمام و کمال اور بیک وقت نظر آتے ہیں اور اس کی گواہی دشمنوں تک نے دی ہے. عربی کا مشہور مقولہ ہے : اَلْـفَضْلُ مَا شَہِدَتْ بِہِ الْاَعْدَاءُ ’’اصل فضیلت وہی ہے جس کی گواہی دشمن دیں‘‘. چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں جب سلطنت ِ کسریٰ سے مسلح تصادم ہوا تو ایرانی افواج کے جاسوسوں اور مخبروں نے مسلمان افواج کا خوب اچھی طرح جائزہ لے کر اپنے سپہ سالار کو جو رپورٹ دی تھی اس کے یہ الفاظ نہایت قابلِ غور ہیں اور اُن کی ذہانت و فطانت پر دلالت کرتے ہیں کہ : ہُمْ رُہْبَانٌ بِاللَّیْلِ وَفُرْسَانٌ بِالنَّہَارِ یعنی یہ عجیب لوگ ہیں ‘ دن میں یہ شہسواروں کے روپ میں نظر آتے ہیں اور میدانِ جنگ میں دادِ شجاعت دیتے ہیں اوررات کے وقت یہی لوگ راہب بن جاتے ہیں اور مُصلّوں پر کھڑے نظر آتے ہیں‘ ان کے آنسوؤں سے ان کی سجدہ گاہیں تر ہوجاتی ہیں اور اسی طرح اپنے ربّ کے حضور الحاح و زاری میں اپنی راتوں کابیشتر حصہ گذار دیتے ہیں.
پس ایک بندۂ مؤمن کی مکمل شخصیت ’’ہُمْ رُہْبَانٌ بِاللَّیْلِ وَفُرْسَانٌ بِالنَّہَارِ‘‘ کے امتزاج ہی سے وجود میں آتی ہے. ہمارے سامنے ’’فُرْسَانٌ بِالنَّہَارِ‘‘ والا رُخ گزشتہ سبق میں آیا تھا اور ’’رُہْبَانٌ بِاللَّـیْلِ‘‘ کی صحیح تعبیر سطورِ بالا میں سامنے آئی ہے. اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو ‘ادنیٰ درجے میں ہی سہی‘ اِن اوصاف کا جامع مصداق بننے کی توفیق عطا فرمائے جو اِن دو اسباق میں ہمارے سامنے آئے ہیں. آمین یا ربّ العالمین!