اب ہم اس رکوع کی آخری دو آیاتِ مبارکہ پر کسی قدر غور و تدبّر کرنے کی کوشش کریں گے. آئیے پہلے ان آیات کا ایک سلیس و رواں ترجمہ ذہن نشین کر لیں: وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَعۡمَالُہُمۡ کَسَرَابٍۭ بِقِیۡعَۃٍ یَّحۡسَبُہُ الظَّمۡاٰنُ مَآءً ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَآءَہٗ لَمۡ یَجِدۡہُ شَیۡئًا وَّ وَجَدَ اللّٰہَ عِنۡدَہٗ فَوَفّٰىہُ حِسَابَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ سَرِیۡعُ الۡحِسَابِ ﴿ۙ۳۹﴾اَوۡ کَظُلُمٰتٍ فِیۡ بَحۡرٍ لُّجِّیٍّ یَّغۡشٰہُ مَوۡجٌ مِّنۡ فَوۡقِہٖ مَوۡجٌ مِّنۡ فَوۡقِہٖ سَحَابٌ ؕ ظُلُمٰتٌۢ بَعۡضُہَا فَوۡقَ بَعۡضٍ ؕ اِذَاۤ اَخۡرَجَ یَدَہٗ لَمۡ یَکَدۡ یَرٰىہَا ؕ وَ مَنۡ لَّمۡ یَجۡعَلِ اللّٰہُ لَہٗ نُوۡرًا فَمَا لَہٗ مِنۡ نُّوۡرٍ ﴿٪۴۰﴾ ’’اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے اعمال ایسے ہیں جیسے دشتِ بے آب میں سراب (یعنی دھوپ میں چمکتی ہوئی ریت) جسے پیاسا پانی سمجھتا ہے. یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس پہنچتا ہے تو نہیں پاتا اسے کچھ بھی‘البتہ اللہ کو اپنے پاس موجود پاتا ہے جو اُس کا پورا پورا حساب چکا دیتا ہے. اور اللہ کو حساب چکاتے دیر نہیں لگتی. یا اُن اندھیروں کے مانند جو کسی گہرے سمندر میں ہوں جنہیں ڈھانپے ہوئے ہو موج اور اس کے اوپر ایک اور موج اور اس پر (سایہ کیے )ہوں بادل. (گویا) تاریکیاں ہیں تہ بہ تہ. جب وہ اپنا ہاتھ نکالتا ہے تواسے بھی نہیں دیکھ پاتا. اور جسے اللہ ہی روشنی عطا نہ فرمائے تواس کے لیے کوئی روشنی نہیں!‘‘
ترجمے سے یہ بات واضح ہو کر سامنے آجاتی ہے کہ ان آیات میں کفر کی حقیقت کو ظاہر کرنے کے لیے دو تمثیلیں بیان ہوئی ہیں. یہ بالکل وہی اصول ہے جو عربی کے ایک مقولے میں سامنے آتا ہے کہ تُعرفُ الْاَشْیَاءُ بِاَضْدَادِہَا ’’اشیاء کی صحیح معرفت اُن کے اضداد کے حوالے سے حاصل ہوتی ہے‘‘. یعنی کسی شے کی حقیقت کو ایک تو آپ خود اُس شے پرغور و فکر کر کے سمجھ سکتے ہیں اور دوسرے اس طور سے کہ اُس چیز کی ضد پر غور کیا جائے اور اس کی حقیقت کو سمجھا جائے‘ تو اس سے بھی اس شے کی حقیقت پر روشنی پڑے گی اور وہ منقّح اور واضح ہو کر شعور و ادراک کی گرفت میں آجائے گی. جیسے ہم جانتے ہیں کہ دن کی اصل حقیقت رات کے پس منظر میں خوب نمایاں ہوتی ہے اور روشنی کی حقیقت تاریکی کے تقابل میں زیادہ اجاگر ہوتی ہے. اسی طرح ایمان کی حقیقت کو سمجھانے کے لیے ایک طرف تو سورۃ النور کی آیت ۳۵ میں نہایت فصیح و بلیغ تمثیل سامنے آ چکی ہے جس میں ایمان کو ایک نور سے تشبیہ دی گئی ہے جو مرکب ہے دو انوار سے‘ ایک نورِ فطرت اور دوسرا نورِ وحی.ان دونوں کے امتزاج سے نورِ ایمان وجود میں آتا ہے جس کامحل و مقام ہے قلبِ انسانی.
اس کے بعد آیات ۳۶ تا ۳۸ میں ایمان کے اس نورِ باطنی کے انسانی شخصیت میں ظہور کی دو صورتوں میں سے ایک کو نہایت فصیح اور بلیغ الفاظ میں بیان کر دیا گیا. اسی حقیقت ِ ایمان کو مزید اُجاگر کرنے کے لیے آیات۳۹‘۴۰ میں ایمانِ حقیقی کے نور سے محروم انسانوں کی شخصیت کی جھلک دو تمثیلوں کے پیرائے میں دکھا دی گئی. مجرد الفاظ سے ظاہر ہے کہ ان تمثیلوں میں سے پہلی تمثیل میں کچھ روشنی اور تاریکی کے بین بین کی سی کیفیت سامنے آتی ہے‘ جبکہ دوسری تمثیل میں تاریکی اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی نظر آتی ہے. تاہم دقت ِ نگاہ سے مشاہدہ کیا جائے تو اِن ظاہری الفاظ کے پردوں میںہدایت و حکمت کے نہایت قیمتی موتی چھپے ہوئے ہیں.
ان تمثیلوں پر غور کرنے سے قبل ایک بات اچھی طرح سمجھ لینی ضروری ہے اور وہ یہ کہ جیسے ایمان کی تمثیل میں بھی قانونی نہیں حقیقی ایمان کی ماہیت بیان کی گئی ہے اسی طرح یہاں کفر سے مراد قانونی اور ظاہری کفر نہیں بلکہ حقیقی اور واقعی کفر ہے‘ مبادا ہم یہ گمان کر لیں کہ یہاں صرف غیر مسلموں اور کھلے کافروں کے متعلق بات ہو رہی ہے اور ہم مسلمانوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے. اگر یہ گمان اور مغالطہ لاحق ہو گیا تو ان آیاتِ مبارکہ میں قرآن حکیم کی جو ہدایت اور رہنمائی ہے‘ اس سے ہم محروم رہ جائیں گے. واضح رہے کہ جس طرح قانونی ایمان کا تعلق صرف ’’قول‘‘ سے ہے اور اس کی اساس شہادت پر ہے‘ یعنی ’’اَشْہَدُ اَنْ لَا اِلٰــہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللّٰہِ‘‘ اور حقیقی ایمان کا تعلق تصدیقٌ بالقلب سے ہے اور وہ عبارت ہے یقینِ قلبی سے‘ اسی طرح کفر کی بھی دو قسمیں اور دو درجے ہیں. ایک کفرِ قانونی اور ظاہری ہے ‘یعنی کھلم کھلا انکار اور ایک کفر باطنی اور مخفی ہے‘ یعنی ظاہرمیں تو اقرار ہے لیکن باطن میں انکار چھپا ہوا ہے‘ چنانچہ قول کے مطابق عمل موجود نہیں ہے. اس کفر حقیقی کے بارے میں ہمارے ایک درویش‘ جن کا انتقال ہو چکا ہے ‘ بڑے کیف کے عالَم میں کہا کرتے تھے کہ ’’جو دم غافل‘ سو دم کافر‘‘ یعنی انسان کا جو وقت بھی غفلت میں بیتتا ہے وہ ایک نوع کے کفر میں گذرتا ہے‘ جیسے کہ گزشتہ صفحات میں علامہ اقبال مرحوم کے اس شعر کا حوالہ آیا تھا کہ : ؎
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مؤمن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق
الغرض اگر کوئی مسلمان غفلت کے عالَم میں ہو‘ اللہ کو بھولے ہوئے ہو‘ اللہ سے محجوب ہو گیا ہو‘ پردے میں آ گیا ہو تو یہ گمشدگی کی کیفیت ہے جو ایک نوع کا کفر ہے‘ اگرچہ اس پر کفر کا فتویٰ نہیں لگے گا. مزید برآں کفر کے ایک معنی ناشکرا پن بھی ہے. ہو سکتا ہے کہ یہاں وہی مراد ہو. بہرحال یہاں کفر کے لیے جو تمثیلیں بیان ہو رہی ہیں وہ کفرِ حقیقی اور کفرِ معنوی کی ہیں‘ صرف کفرِ قانونی یا کفرِ فقہی کی نہیں. یہ وہ باطنی کیفیت ہے جس میں انسان کا قلب ایمان کے حقیقی نور اور حقیقی روشنی سے محروم ہو‘ قطع نظر اِس سے کہ ظاہری اور قانونی طور پر وہ مسلمان ہو یا کھلم کھلا بھی کفر ہی کا اظہار کر رہا ہو.