کفر کا دوسرا یعنی آخری اور انتہائی درجہ یہ ہے کہ ایمان سے محرومی پر مستزاد ضمیر بھی بالکل مُردہ ہو چکا ہو اور نیکی اور بدی کی تمیز بھی سرے سے مفقود ہو چکی ہو. چنانچہ اب انسان کی شخصیت و کردار میں سوائے عریاں نفس پرستی کے اور کچھ نہ رہے اور نیکی اور بھلائی ملمع کے درجے میں بھی موجود نہ ہو. یہی وجہ ہے کہ تیسری تمثیل میں یہ انتہائی کیفیت بیان ہوئی ہے کہ روشنی کی کوئی ایک کرن بھی موجود نہیں‘ بلکہ انتہائی تاریکی اور تہ بر تہ ظلمتیں ہیں. یعنی کامل خود غرضی ہے اور خواہشات و شہوات ہی کی پیروی ہے اور انسان ہوائے نفس ہی کا بندۂ بے دام بن کر رہ گیا ہے. کوئی جھوٹ موٹ کی نیکی اور دکھاوے کا خیر بھی موجود نہیں اور کوئی بھلائی خواہ وہ ملمع ہی کی نوعیت کی ہو ‘اس کی بھی کوئی کرن سیرت و کردار میں نظرنہیں آتی. یہ گویا ضلالت‘ گمراہی اور گراوٹ کی آخری انتہا ہے. یہی وجہ ہے کہ اس کیفیت کو یوں تعبیر فرمایا گیا: ظُلُمٰتٌۢ بَعۡضُہَا فَوۡقَ بَعۡضٍ ؕ ’’تاریکیوں پر تاریکیاں ہیں‘‘. اس ظلمت ِ مطلق اور تاریکیٔ محض کے لیے جو تمثیل یہاں دی گئی ہے اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ایک فرانسیسی امیر البحر اِسی کی بنا پر ایمان سے مشرف ہو گیا تھا. اس لیے کہ اس نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ نبی اکرم نے زندگی بھر کبھی سمندری سفر نہیں کیا‘جبکہ اس تمثیل کے بارے میں اس کا کہنا یہ تھا کہ یہ تمثیل صرف وہی شخص دے سکتا ہے جس کی بیشتر زندگی سمندر کے سفر میں گذری ہو اور اسے گہرے سمندر میں اکثر طوفانوں سے سابقہ درپیش آیا ہو اور اسے ذاتی تجربہ ہو کہ سمندر کی گہرائی میں اندھیرے کی کیا کیفیت ہوتی ہے ‘جبکہ موجوں پر موجیں چڑھی چلی آ رہی ہوں اور اوپر گہرے بادل بھی ہوں کہ ستاروں کی کوئی چمک بھی پانی میں منعکس نہ ہو رہی ہو. ایسی مکمل تاریکی کا کوئی تخیل و تصور کسی عام انسان کے لیے ممکن (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الایمان‘ باب من الایمان ان یحب لاخیہ ما یحب لنفسہ. وصحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب الدلیل علی ان من خصال الایمان ان یحب لاخیہ. نہیں ہے‘ لہذا یہ تمثیل اور تشبیہ یا تو وہی شخص دے سکتا ہے جسے عملاً کسی اندھیری رات میں جبکہ گہرے بادل بھی چھائے ہوئے ہوں ‘سمندر میں کسی طوفان سے سابقہ پیش آیا ہو اور پھر وہ قادرالکلام بھی ہو اور فصاحت و بلاغت سے بدرجۂ تمام و کمال بہرہ ور ہو! یا پھر ایسی تمثیل اور تشبیہ صرف اللہ ہی بیان کر سکتا ہے جو کُل کائنات کا خالق و مدبّر ہے. لہذا اُس نے تسلیم کیا کہ قرآن مجید اللہ کا کلام ہے جو محمد پر نازل ہوا . چنانچہ وہ ایمان لے آیا.

اب ذرا تمثیل کے الفاظ پر توجہ مرکوز کیجیے. ارشاد ہوتا ہے: 

اَوۡ کَظُلُمٰتٍ فِیۡ بَحۡرٍ لُّجِّیٍّ یَّغۡشٰہُ مَوۡجٌ مِّنۡ فَوۡقِہٖ مَوۡجٌ مِّنۡ فَوۡقِہٖ سَحَابٌ ؕ ظُلُمٰتٌۢ بَعۡضُہَا فَوۡقَ بَعۡضٍ ؕ اِذَاۤ اَخۡرَجَ یَدَہٗ لَمۡ یَکَدۡ یَرٰىہَا ؕ 
’’یا جیسے وہ اندھیرے جو کسی گہرے سمندر میں ہوں جسے ڈھانپے ہوئے ہو موج‘ پھر اس کے اوپر چڑھی آ رہی ہو ایک اور موج‘ اور (پھر مطلع بھی صاف نہ ہو بلکہ )اس کے اوپر بادل (چھائے ہوئے) ہوں. (گویا) تاریکیوں پر تاریکیاں ہیں. جب وہ اپنا ہاتھ نکالتا ہے تو اسے بھی نہیں دیکھ پاتا‘‘.

گُھپ اندھیرے کے لیے ہماری زبان کا بھی محاورہ ہے ’’ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دینا‘‘. اس لیے کہ ایک انسان جب اپنا ہاتھ نکالتا ہے تو اسے سمت کا شعور تو حاصل ہوتا ہے اور خوب اندازہ ہوتا ہے کہ میرا ہاتھ کدھر ہے‘ لیکن اگر وہ اس کے باوجود اپنے ہاتھ کو بھی دیکھ نہیں پا رہا تو معلوم ہوا کہ انتہائی تاریکی ہے اور روشنی کی کوئی رمق بھی موجود نہیں! سبحان اللہ وبحمدہٖ‘ یہ ہے تمثیل کی معراج اور تشبیہ کا کمال!

اب اس آیت ِ مبارکہ کے آخری حصہ پر توجہ فرمائیے. ارشاد فرمایا: 

وَ مَنۡ لَّمۡ یَجۡعَلِ اللّٰہُ لَہٗ نُوۡرًا فَمَا لَہٗ مِنۡ نُّوۡرٍ ﴿٪۴۰﴾ 
’’اور جس کو اللہ ہی نے نور عطا نہ فرمایا ہوتو اس کے لیے کوئی نور نہیں‘‘.

نور تو اصل میں ایمان ہے‘ اگر ایمان میسر نہیں تو پھر نور کہاں؟ اس صورت میں تو تاریکیاں ہی تاریکیاں ہیں!!

اس درس کے آغاز میں عرض کیا گیا تھا کہ جیسے نورِ خارجی اشیاء کے ظہور کا ذریعہ بنتا ہے ویسے ہی نورِ باطنی حقائق کے ظہور کا ذریعہ بنتا ہے. گویا نورِ ایمان نہ ہو تو حقائق کا ادراک ممکن نہیں ہے. اسی کو بصیرت یعنی باطنی مشاہدہ کہا جاتا ہے. رہی ہماری ظاہری بصارت تو وہ حیوانات کو بھی حاصل ہے. کسی عارفِ کامل نے کیا خوب کہا ہے : ؎ 

دم چیست؟ پیامے است! شنیدی نہ شنیدی؟
در خاکِ تو یک جلوۂ عام است نہ دیدی؟
دیدن دگر آموز! شنیدن دگر آموز !!

یعنی یہ سانس کی آمدو رفت کیا ہے؟ ایک پیغام ہے! تم سنتے ہو یا نہیں سنتے؟ اور تمہارا خاکی وجود ایک نور کی جلوہ گاہ بھی ہے! تم دیکھتے نہیں؟ تو تمہیں چاہیے کہ (حیوانی سمع و بصر سے بلند تر سطح پر) ایک دوسری ہی طرح کا دیکھنا بھی سیکھو اور سننا بھی! واقعہ یہ ہے کہ ایمانِ حقیقی کے بغیر انسان اس ’’دیدن دگر‘‘ اور ’’شنیدن دگر‘‘ سے محروم رہتا ہے. یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم کی یہ دعا تو بہت ہی مشہور ہے کہ: اَللّٰہُمَّ اَرِنِیْ حَقِیْقَۃَ الْاَشْیَاءِ کَمَا ہِیَ ’’اے اللہ !مجھے اشیاء کی حقیقت دکھا جیسی کہ وہ فی الحقیقت ہیں!‘‘ علاوہ ازیں صحیح بخاری‘ صحیح مسلم اور دیگر کتب حدیث میں یہ دعا بھی منقول ہے جو آنحضور  خاص طور پر فجر کی سنتوں اور فرضوں کے درمیان پڑھا کرتے تھے: 

اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ فِیْ قَلْبِیْ نُوْرًا وَفِیْ بَصَرِیْ نُوْرًا وَفِیْ سَمْعِیْ نُوْرًا وَعَنْ یَمِیْنِیْ نُوْرًا وَعَنْ یَسَارِیْ نُوْرًا وَفَوْقِیْ نُوْرًا وَتَحْتِیْ نُوْرًا وَاَمَامِیْ نُوْرًا وَخَلْفِیْ نُوْرًا وَاجْعَلْ لِیْ نُوْرًا وَفِیْ لِسَانِیْ نُوْرًا وَفِیْ عَصَبِیْ نُوْرًا وَلَحْمِیْ نُوْرًا وَدَمِیْ نُوْرًا وَشَعْرِیْ نُوْرًا وَبَشَرِیْ نُوْرًا وَاجْعَلْ فِیْ نَفْسِیْ نُوْرًا وَعَظِّمْ لِیْ نُوْرًا‘ اَللّٰہُمَّ اَعْطِنِیْ نُوْرًا (۱
’’اے اللہ! میرے دل میں نور عطا فرما‘ میری بصارت میں نور عطا فرما ‘میری سماعت میں نور عطا فرما‘ اور میری دا ہنی جانب سے نور دے‘ میری با ہنی جانب سے بھی نور عنایت کر ‘اور میرے اوپر سے نور دے ‘ میرے قدموں تلے سے نور دے‘ اور میرے سامنے سے نور دے ‘میری پشت کے پیچھے سے نور دے‘ اور میرے لیے نور ہی نو ر کر دے! اور میری زبان میں نور بھر دے ‘اور میرے رگ و پَے میں نور بھر دے ‘اور میرے گوشت میں نور بھر دے ‘اور میرے خون میں نور بھر دے‘ اور میرے بالوں میں نور بھر دے ‘اور میری کھال میں نور دے‘ اور میری جان کو نور سے (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الایمان‘ باب من الایمان ان یحب لاخیہ ما یحب لنفسہ. وصحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب الدلیل علی ان من خصال الایمان ان یحب لاخیہ. لبریز کر دے اور میرے نور کو فراخ و وسیع فرما دے اور مجھے نور ہی نور عطا کر!‘‘

اس سبق کی پہلی آیت (۳۵) میں ہم پڑھ چکے ہیں: 
یَہۡدِی اللّٰہُ لِنُوۡرِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ ’’اللہ ہدایت بخشتا ہے اپنے نور کی جس کو چاہتا ہے.‘‘ اور چونکہ ہدایت کے مفہوم میں رہنمائی یعنی راستہ دکھادینے سے لے کر منزلِ مقصود تک بالفعل پہنچا دینے کے جملہ مراحل داخل ہیں لہذا اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ اللہ رسائی عطا فرما دیتا ہے اپنے نور تک جس کو چاہتا ہے.

اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں بھی یہ ولولہ‘ یہ اُمنگ اور یہ آرزو پیدا فرما دے کہ ہم بھی اُن خوش نصیبوں میں شامل ہوں جنہیں کفر و شرک‘ الحاد و زندقہ‘ مادہ پرستی‘ ریاکاری‘ منافقت اور قول و عمل کے تضاد کے اندھیروں سے نکل کر ایمان و یقین کی روشنی میں آجانے کی توفیق مل گئی ہو! آمین یا ربّ العالمین! 

وآخر دعوانا ان الحمد لِلّٰہِ ربّ العالمین