اسی آیت مبارکہ میں آگے ارشاد فرمایا: لَہُ الۡمُلۡکُ ’’بادشاہی اُسی کی ہے‘‘. یعنی اس پوری کائنات کا حقیقی حکمران وہی ہے. بقول علامہ اقبال مرحوم : ؎
سروری زیبا فقط اُس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اِک وہی باقی بتانِ آزری!
وہ قانوناً (de jure) بھی اس پوری کائنات کا بلا شرکت ِ غیرے بادشاہ ہے. یعنی حکمرانی کا استحقاق بھی صرف اُسی کو حاصل ہے اور واقعتا (de facto) بھی بادشاہی اُسی کی ہے. یعنی فی الواقع بھی بادشاہِ حقیقی اور حاکمِ مطلق صرف اسی کی ذات ہے. گویا ’’لَـہٗ‘‘ میں حرفِ جار ’’لام‘‘ لامِ استحقاق کے معنی بھی دے رہا ہے اور لامِ تملیک کے بھی. اگر صحیح نہج پر غور کیا جائے تو اس لازمی نتیجے تک پہنچے بغیر چارہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن مخلوقات کو کچھ اختیار بخشا ہے‘ جیسے جِن و اِنس‘ ان کا اپنا پورا وجود بھی اللہ کے قانون میں جکڑا ہوا ہے. چنانچہ ہم اس بات پر قادر نہیں ہیں کہ اپنے جسم کے کسی حصے پر بالوں کی روئیدگی کو روک سکیں. ہمیں یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ جب چاہیں اپنے قلب کی حرکت کو روک دیں اور جب چاہیں اسے رواں کر دیں. اسی طرح ہم آنکھ سے سننے کا کام نہیں لے سکتے اور کان سے دیکھنے کا کام نہیں لے سکتے. معلوم ہوا کہ ہمارا اپنا وجود بھی ہمارے حکم کے تابع نہیں ہے‘ بلکہ اللہ تعالیٰ کے قوانینِ تکوینی و طبعی میں جکڑا ہوا ہے. گویا وہ بھی اسی بادشاہِ حقیقی کا حکم مان رہا ہے‘ جس کے لیے نہایت ایجاز و اعجاز کے ساتھ فرمایا گیا ہے : لَہُ الۡمُلۡکُ ’’حقیقی بادشاہی صرف اسی کی ہے‘‘. یہ دوسری بات ہے کہ اپنے وجود کے ایک نہایت محدود اور حقیر سے حصے میں اختیار اور ارادے کی اس آزادی پر‘ جو تمام تر اللہ ہی کی عطا کردہ ہے‘ ہم اتنے از خود رفتہ ہو جائیں کہ اردو ضرب المثل کے مطابق ہلدی کی گانٹھ پا کر پنساری بن بیٹھیں اور اپنے آپ کو کلیتاً خود مختار سمجھنے لگیں!
آگے ارشاد فرمایا: لَہُ الۡمُلۡکُ ’’اور کُل حمد بھی اُسی کے لیے ہے‘‘. لفظ ’’حمد‘‘ (جس کی تشریح اس سے قبل سورۃ الفاتحہ کے درس میں بیان ہو چکی ہے) مجموعہ ہے شکر و ثنادونوں کا. گویا کُل شکر اسی کے لیے ہے اور کُل ثنا بھی اُسی کے لیے ہے. اس لیے کہ اس پورے سلسلۂ کون و مکاں میں جہاں کہیں کوئی خیر و خوبی‘ کوئی حسن و جمال اور کوئی مظہرِ کمال نظر آ رہا ہے اس کا سرچشمہ و منبع اللہ تعالیٰ ہی کی ذاتِ والا صفات ہے. لہذا تعریف کا حقیقی مستوجب و سزاوار اور مالک و مستحق بھی صرف وہی ہے. اسی طرح چونکہ ہمیں جو کچھ بھی حاصل ہو رہا ہے اور ہماری جو ضرورت بھی پوری ہو رہی ہے وہ چاہے بہت ہی طویل سلسلۂ اسباب کے تعلق و توسط سے ہو رہی ہو‘ لیکن اصل مسبّب الاسباب تو بہرحال اللہ تعالیٰ ہی ہے‘ لہذا شکر کی حقیقی مستحق بھی صرف اُسی کی ذات ہے.