دوسری آیت کے آغاز میں فرمایا: ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ ’’وہ (اللہ) ہی ہے جس نے تم سب کو پیدا فرمایا‘‘.گویا پہلی آیت ایک پُر جلال تمہید کی حیثیت رکھتی ہے جس کے بعد ایمان اور کفر کی بحث شروع ہو رہی ہے‘ جس کے لیے نہایت فصیح و بلیغ اور حد درجہ لطیف پیرایۂ بیان اختیار فرمایا کہ ذرا غور کرو کہ اللہ تعالیٰ ہی کی ذاتِ والا صفات ہے جو تم سب کی خالق ہے. گوروں کو بھی اُسی نے پیدا کیا اور کالوں کوبھی ‘ مشرق کے رہنے والوں کو بھی اور مغرب کے رہنے والوں کو بھی تو پھر کتنی حیرت کی بات ہے کہ : فَمِنۡکُمۡ کَافِرٌ وَّ مِنۡکُمۡ مُّؤۡمِنٌ ؕ ’’تو تم میں سے کوئی کافر ہے اور کوئی مؤمن!‘‘ حالانکہ اُس نے ارادے اور اختیار کی جو تھوڑی سی آزادی تمہیں عطا فرمائی ہے وہ اصلاً ابتلاء و آزمائش اور امتحان کے لیے ہے. جیسا کہ سورۃ الملک میں ارشاد ہوا: الَّذِیۡ خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَ الۡحَیٰوۃَ لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ (آیت ۲) ’’(اللہ ہی ہے) جس نے موت و حیات (کے سلسلے) کو پیدا فرمایا تا کہ تم لوگوں کو آزمائے کہ کون ہے تم میں سے بہتر عمل کرنے والا‘‘. یہی بات سورۃ الدھر میں اس اسلوب سے ارشاد ہوئی : اِنَّا ہَدَیۡنٰہُ السَّبِیۡلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّ اِمَّا کَفُوۡرًا ﴿۳﴾ ’’یقینا ہم نے اس (انسان) کو (ہدایت کا) راستہ دکھا دیا‘ اب وہ (مختار ہے) خواہ شکر گذار بندہ بنے‘ خواہ ناشکرااور انکار کرنے والا بن جائے!‘‘ اسی اختیار کا ظہور اس طرح ہو رہا ہے کہ کچھ لوگ اللہ کا کفر کرنے والے ہیں اور کچھ لوگ اس کو ماننے والے ہیں‘ لیکن ظاہر بات ہے کہ انسان کا رویہ اور اس کی روش بے نتیجہ نہیں رہے گی‘ بلکہ اس کا بھلا یا برا نتیجہ نکل کر رہے گا. لہذا اس آیت کے اختتام پر انسان کو مطلع اور خبردار کر دیا گیا کہ: وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ ﴿۲﴾ ’’اور جو کچھ تم کر رہے ہو اسے اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے‘‘. اس ارشاد میں بیک وقت ایک دھمکی بھی مضمر ہے اور ایک بشارت بھی. یعنی جو لوگ اس کے منکر‘ باغی اور سرکش ہوں گے‘ گویا ناشکرے ہوں گے ‘اور جو اس کے ساتھ شرک کریں گے ان کو وہ سزا دے گا. یہ ان الفاظِ مبارکہ کا دھمکی والا پہلو ہے. اور بشارت والا پہلو یہ ہے کہ جو اس کے شکرگزار ہوں گے‘ اس کے مطیع و فرماں بردار ہوں گے اور اس کی معرفت سے اپنے قلوب و اذہان کو منور کریں گے ان کو وہ انعام و اکرام سے نوازے گا. اس لیے کہ وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے اور سب کی روش سے آگاہ ہے!