کائنات اور انسان کی بامقصد تخلیق

اگلی آیت میں ارشاد فرمایا: خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ بِالۡحَقِّ ’’اُس نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا فرمایا‘‘. یعنی اللہ نے یہ ساتوں آسمان اور یہ زمین جو پیدا فرمائے ہیں تو بے کار و بے مقصد اور بلا غرض و غایت پیدا نہیں فرمائے‘ بلکہ ’’بالحق‘‘ پیدا فرمائے ہیں ‘یعنی ایک مقصد کے ساتھ ان کی تخلیق فرمائی ہے. ’’حق‘‘ عربی زبان کا بڑا وسیع المفہوم لفظ ہے. اس کا اصل مفہوم ہے ’’وہ چیز جو فی الواقع موجود ہو‘‘.باطل کا لفظ حق کی ضد ہے‘ چنانچہ باطل اصلاً اس کو کہتے ہیں کہ جو نظر تو آئے‘ محسوس و مشہود تو ہو‘ لیکن حقیقتاً موجود نہ ہو‘ جیسے سراب. لیکن حق کے اس مفہومِ اصلی پر چند مفاہیم زائدہیں. مثلاً حق ہر وہ چیز ہے جو عقلاً مسلّم ہو‘ اس کے مقابلہ میں باطل وہ چیز ہے جو عقلاً مسلّم نہ ہو. اسی طرح حق ہر وہ شے ہے جو اخلاقاً ثابت ہو اور اس کے مقابلہ میں باطل وہ ہے جو اخلاقاً ثابت نہ ہو. مزید برآں حق ہر وہ چیز ہے جو بامقصد ہو‘ جس کے پیچھے کوئی حکمت کار فرما ہو اور اس کے مقابلہ میں باطل و عبث ہر وہ فعل ہے جوبے مقصد ہواورجس کی پشت پر کوئی حکمت نہ ہو. اس آیت میں لفظ ’’حق‘‘ اسی آخری مفہوم میں استعمال ہوا ہے اور کلام کا حاصل اور مدعا یہ ہے کہ اللہ نے یہ کائنات بے مقصد اور بغیر حکمت کے گویا باطل اور عبث نہیں بنائی. یہ مضمون سورۂ آل عمران کے آخری رکوع میں بھی بایں الفاظ آ چکا ہے: رَبَّنَا مَا خَلَقۡتَ ہٰذَا بَاطِلًا ۚ (آیت ۱۹۱’’اے ربّ ہمارے! تو نے یہ سب کچھ باطل و بے مقصد نہیں بنایا!‘‘

کائنات کی عمومی تخلیق کے ذکر کے بعد خاص طور پر تخلیقِ انسانی کا ذکر فرمایاگیا: 
وَ صَوَّرَکُمۡ فَاَحۡسَنَ صُوَرَکُمۡ ۚ ’’اور (اس نے) تمہاری نقشہ کشی کی اور تمہاری بہت ہی اچھی نقشہ کشی اور صورت گری فرمائی‘‘. یعنی ذرا اپنی عظمت کو پہچانو‘ تم اس کُل سلسلۂ تخلیق کا نقطۂ عروج ہو‘ اللہ نے تمہیں اشرف المخلوقات بنایا اور تمہیں کیسی کیسی عمدہ و اعلیٰ اور ظاہری و باطنی استعدادات سے نوازا. اس نے تمہاری تخلیق ’’فِیۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ‘‘ یعنی ’’نہایت اعلیٰ اور بہترین انداز‘‘ پر کی. پھر تمہاری صورت گری کی اور ناک نقشہ عطا فرمایا اور کیاہی عمدہ شکل و صورت سے نوازا. تو کیا یہ سب کچھ بے کار اور بے مقصد ہے؟ اورکیا ’’نشستند‘ گفتند و برخاستند‘‘کے مانند تمہارا اس دنیا میں پیدا ہونا اور حیوانوں کی طرح پیٹ اور جنس کے تقاضے پورے کرکے مر جانا ہی تمہاری کُل حقیقت ہے؟ نہیں‘ ایسا نہیں ہے‘ بلکہ: وَ اِلَیۡہِ الۡمَصِیۡرُ ﴿۳﴾ ’’اور اسی کی طرف (سب کو ) لوٹنا ہے‘‘.اور ظاہر ہے کہ لوٹنا جواب دہی کے لیے ہوگا. وہاں تمہارا محاسبہ ہوگا. تم محض حیوان نہیں ہو‘ تمہارا مرتبہ و مقام بہت بلند ہے‘ تم اشرف المخلوقات ہو.لہذا ؏ 

’’جن کے رتبے ہیں سوا اُن کی سوا مشکل ہے!‘‘

کے مصداق تمہاری ذمہ داری بھی بہت زیادہ ہے اور تمہیں لازماً جواب دہی کرنی ہوگی. یہاں آپ نے دیکھا کہ مضمون تدریجاً ایمان باللہ سے ایمان بالآخرۃ کی طرف منتقل ہو گیا. قرآن حکیم میں اس مضمون کی دوسری نہایت حسین نظیر سورۃ المؤمنون کے آخر میں ہے کہ: 
اَفَحَسِبۡتُمۡ اَنَّمَا خَلَقۡنٰکُمۡ عَبَثًا وَّ اَنَّکُمۡ اِلَیۡنَا لَا تُرۡجَعُوۡنَ ﴿۱۱۵﴾ ’’کیا تم نے یہ گمان کیا ہے کہ ہم نے تمہیں عبث پیدا کیا ہے اور تم ہماری طر ف لوٹائے نہ جاؤ گے؟‘‘