آغازِ درس میں اس سورۂ مبارکہ کا ایک تجزیہ پیش کیا جا چکا ہے کہ اس کی پہلی سات آیات میں ایمانیات ِ ثلاثہ یعنی ایمان باللہ ‘ ایمان بالرسالت اور ایمان بالآخرت کا ذکر ہے اور اس کے بعد تین آیات میں ایمان کی پُر زور دعوت ہے. پہلے رکوع کی ان دس آیات میں سے چار آیات کا ہم مطالعہ کر چکے ہیں‘اور اب ہم بقیہ چھ آیات کا مطالعہ کرتے ہیں. لہٰذا پہلے ہم ان کا سلیس و رواں ترجمہ ذہن نشین کر لیں:
اَلَمۡ یَاۡتِکُمۡ نَبَؤُا الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ قَبۡلُ ۫ فَذَاقُوۡا وَبَالَ اَمۡرِہِمۡ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۵﴾ذٰلِکَ بِاَنَّہٗ کَانَتۡ تَّاۡتِیۡہِمۡ رُسُلُہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ فَقَالُوۡۤا اَبَشَرٌ یَّہۡدُوۡنَنَا ۫ فَکَفَرُوۡا وَ تَوَلَّوۡا وَّ اسۡتَغۡنَی اللّٰہُ ؕ وَ اللّٰہُ غَنِیٌّ حَمِیۡدٌ ﴿۶﴾زَعَمَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنۡ لَّنۡ یُّبۡعَثُوۡا ؕ قُلۡ بَلٰی وَ رَبِّیۡ لَتُبۡعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلۡتُمۡ ؕ وَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرٌ ﴿۷﴾فَاٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ النُّوۡرِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلۡنَا ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ ﴿۸﴾یَوۡمَ یَجۡمَعُکُمۡ لِیَوۡمِ الۡجَمۡعِ ذٰلِکَ یَوۡمُ التَّغَابُنِ ؕ وَ مَنۡ یُّؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ وَ یَعۡمَلۡ صَالِحًا یُّکَفِّرۡ عَنۡہُ سَیِّاٰتِہٖ وَ یُدۡخِلۡہُ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿۹﴾وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ وَ بِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ ﴿٪۱۰﴾
’’کیا نہیں پہنچ چکی ہے تمہیں خبر ان لوگوں کی جنہوں نے کفر کی روش اختیار کی تھی (تم سے ) پہلے؟ تو وہ چکھ چکے اپنے کیے کی سزا اور ان کے لیے (آخرت کا) دردناک عذاب (مزید) ہے. یہ اس لیے ہوا کہ ان کے پاس ان کے رسول واضح اور روشن تعلیمات کے ساتھ آتے رہے تو انہوں نے کہا کہ کیا انسان ہمیں ہدایت دیں گے؟پس انہوں نے کفر کیا اور پیٹھ موڑ لی تو اللہ نے بھی استغناء اختیار فرمایا‘ اور اللہ تو ہے ہی غنی اور (اپنی ذات میں از خود) محمود. کافروں کو یہ مغالطہ لاحق ہو گیا ہے کہ انہیں (موت کے بعد) اٹھایا نہ جائے گا. (اے نبیﷺ !) کہہ دیجیے: کیوں نہیں! اور مجھے میرے ربّ کی قسم ہے کہ تمہیں لازماً اٹھایا جائے گا ‘پھر تم کو جتلایا جائے گا جو کچھ تم کرتے رہے تھے. اور یہ چیز اللہ پر بہت آسان ہے. پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسولؐ پر اور اُس نور پر جو ہم نے نازل فرمایا (یعنی قرآن مجید). اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اس سے باخبر ہے. جس دن وہ تم کو جمع کرے گا جمع ہونے کے دن (یعنی قیامت کے دن) وہ ہوگا (اصل) ہار اور جیت کے فیصلے کا دن. اور جو ایمان لائے گا اللہ پر اورنیک عمل کرے گا تو وہ اس سے اس کی برائیوں کو دور کر دے گا اور اسے داخل کرے گا ان باغات میں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی‘ وہ اس میں رہیں گے ہمیشہ ہمیش. یہی ہے بہت بڑی کامیابی. اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ہوگا اور ہماری آیات کو جھٹلایا ہوگا وہ ہوں گے آگ والے‘ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے. اور وہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے‘‘.
آیاتِ مبارکہ اور ان کے ترجمہ سے یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ یہاں اوّلاً ایمان بالرسالت اور ایمان بالآخرت کا بیان نہایت ہی مؤثر اسلوب اور حد درجہ فصاحت و بلاغت سے ہوا ہے. اس اندازِ کلام کے اعجاز سے ہر وہ شخص لطف لے سکتا ہے جو عربی زبان کی تھوڑی سی بھی شُدبُد رکھتا ہو.