پہلے ایمان بالرسالت کے ضمن میں یہ عظیم حقیقت واضح کی جا رہی ہے کہ رسولوں کا معاملہ عام واعظین ‘ناصحین ‘ مصلحین یا مبلغین کا سا نہیں ہے کہ چاہے لوگ ان کی بات مانیں چاہے نہ مانیں کوئی اہم فرق واقع نہیں ہوتا. اس کے برعکس رسول تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آخری حجت بن کر آتے ہیں. لہذا ان کے انکار‘ ان سے اعراض اور ان کی تکذیب کے دو نتیجے نکل کر رہتے ہیں اور ان کا انکار کرنے والوں کو دو سزائیں مل کر رہتی ہیں. ایک اس دنیا میں عذابِ استیصال جس کے ذریعے پوری پوری قومیں ہلاک و برباد کر دی گئیں‘ جیسے قومِ نوحؑ‘ قومِ ہودؑ‘ قومِ صالح ؑ‘ قومِ لوطؑ‘قومِ شعیب ؑ اور آلِ فرعون. ان قوموں کا ذکر قرآن مجید میں بار بار اسی اعتبار سے آیا ہے کہ ان کے پاس اللہ کے رسول ایسی واضح تعلیمات کے ساتھ آئے جو فطرتِ انسانی کے لیے جانی پہچانی تھیں. مزید برآں یہ رسول کھلے کھلے معجزات بھی لے کر آئے. ’’بیّنات‘‘ میں دونوں چیزیں یعنی واضح تعلیمات اور روشن معجزات شامل ہیں. لیکن جب ان قوموں نے ان رسولوں کا انکار کیا اور ان کی دعوت کو ردّ کر دیا تو وہ نسیاً منسیّاکر دی گئیں. جیسے کہ قرآن مجید میں ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا کہ: کَاَنۡ لَّمۡ یَغۡنَوۡا فِیۡہَا ؕ (ھُود:۶۸و۹۵) ’’وہ قومیں ایسے ہو گئیں جیسے کبھی دنیا میں تھیں ہی نہیں‘‘. یہ وہ سزا ہے جو رسولوں کے انکار پر اس دنیا میں ملتی ہے. اس کے علاوہ ابھی ایک دوسری سزا باقی ہے اور وہ ہے آخرت کی سزا ‘ یعنی جہنم! یہ مختصر سی تشریح و توضیح ہے اس آیت مبارکہ کی:
اَلَمۡ یَاۡتِکُمۡ نَبَؤُا الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ قَبۡلُ ۫ فَذَاقُوۡا وَبَالَ اَمۡرِہِمۡ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۵﴾
’’کیا نہیں پہنچ چکی ہے تمہیں خبر ان کی جنہوں نے کفر کیا تھا پہلے؟ تو وہ اپنے کرتوتوں کی سزا کا ایک مزا (اس دنیا میں) چکھ چکے‘ اور ان کے لیے (آخرت میں دوسری سزا کے طور پر) دردناک عذاب تیار ہے‘‘.
اس جگہ ’’استفہامِ تقریری‘‘ کا اسلوب اس لیے اختیار کیا گیا کہ سورۃ التغابن مدنی سورت ہے. گویا قرآن مجید کا لگ بھگ دو تہائی حصہ جو مکی سورتوں پر مشتمل ہے‘ اس سے بہت پہلے نازل ہو چکا تھا جس میں ان اقوام کاذکر بارہا آ چکا تھا جو رسولوں کی دعوت کو ردّ کرنے کے جرم کی پاداش میں ہلاک کر دی گئی تھیں.
رسالت کے ضمن میں اگلی آیت میں جو دوسری نہایت اہم بات بیان ہوئی وہ یہ ہے کہ رسولوں کے باب میں لوگوں نے جو سب سے بڑی ٹھوکر کھائی اور ان کو ماننے اور ان پر ایمان لانے میں جو سب سے بڑی رکاوٹ ان کے سامنے آ گئی وہ ان رسولوں کی بشریت تھی. ظاہر ہے کہ رسول انسان تھے‘ انسانوں کی طرح کھاتے پیتے تھے. وہ نبوت و رسالت پر فائز ہونے سے قبل دنیا میں کاروبار کرتے تھے‘ بازاروں میں چلتے پھرتے تھے ‘ ان کو بھی وہ احتیاجیں لاحق ہوتی تھیں جو دوسرے تمام انسانوں کو لاحق ہوتی ہیں. جیسے خود نبی اکرم ﷺ نے مکہ میں چالیس برس کی عمر شریف تک کاروبار کیا ہے. چنانچہ مشرکین مکہ نبی اکرمﷺ پر اجرائے وحی اور ظہورِ نبوت کے بعد اسی نوع کے اعتراضات وارد کیا کرتے تھے جن کا قرآن مجید میں مختلف اسالیب سے متعدد مقامات پر ذکر ہوا ہے. مثلاً سورۃ الفرقان میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کا یہ قول نقل فرمایا ہے: وَ قَالُوۡا مَالِ ہٰذَا الرَّسُوۡلِ یَاۡکُلُ الطَّعَامَ وَ یَمۡشِیۡ فِی الۡاَسۡوَاقِ ؕ (الفرقان:۷) ’’اور (یہ مشرکین) کہنے لگے کہ اس رسول کی کیا کیفیت ہے کہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے؟‘‘ لہذا ہمیشہ یہی ہوا کہ رسولوں کی بشریت ان پر ایمان لانے میں بہت بڑی رکاوٹ بنتی رہی کہ یہ تو ہم جیسے انسان ہیں‘ ہماری ہی طرح کے ہاتھ پاؤں ان کے بھی ہیں اور ہماری ہی طرح کی ضروریات و حوائج ان کو بھی لاحق ہیں‘ پھر یہ کیسے ہماری ہدایت پر مأمور ہو سکتے ہیں؟ چنانچہ یہ ہے وہ سب سے بڑی ٹھوکر جو لوگوں نے نبوت و رسالت کے باب میں کھائی اور یہ ہے وہ سب سے بڑا حجاب جو رسالت کے باب میں لوگوں کے سامنے آیا‘ جسے کفر کے سرداروں اور وقت کے بڑے بڑے چودھریوں نے جن کی سیادت و قیادت کو رسول کی دعوتِ توحید سے خطرہ لاحق ہوتا تھا‘ لوگوں کو ورغلانے کا ذریعہ بنایا. انہوں نے لوگوں سے کہا کہ تم اپنے ہی جیسے انسان کو رسول مان کر ان کا اتباع کرو گے تو بڑے گھاٹے میں رہو گے. چنانچہ انہوں نے خود بھی رسولوں کی تصدیق سے انکار کیا اور عامۃ الناس کو بھی اس سے باز رکھا اسی حقیقت کا ذکر ہے اگلی آیت مبارکہ میں کہ رسولوں کی دعوت سے انکار کا ایک اہم سبب ان کا انسان ہونا بھی رہا ہے. ارشاد ہوتا ہے:
ذٰلِکَ بِاَنَّہٗ کَانَتۡ تَّاۡتِیۡہِمۡ رُسُلُہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ فَقَالُوۡۤا اَبَشَرٌ یَّہۡدُوۡنَنَا ۫ فَکَفَرُوۡا وَ تَوَلَّوۡا وَّ اسۡتَغۡنَی اللّٰہُ ؕ وَ اللّٰہُ غَنِیٌّ حَمِیۡدٌ ﴿۶﴾
’’یہ اس لیے ہوا کہ ان کے پاس ان کے رسول واضح اور روشن تعلیمات اور معجزات کے ساتھ آتے رہے تو انہوں نے کہا کہ کیا بشر ہمیں ہدایت دیں گے؟ پس انہوں نے کفر کیا اور پیٹھ موڑ لی تو اللہ نے بھی استغناء اختیار فرمایا‘ اور اللہ تو ہے ہی غنی اور (اپنی ذات میں از خود) محمود (اور ستودہ صفات)‘‘.
یہاں آیت کے آخری الفاظ میں سمجھانے کا بڑا ہی پیارا انداز ہے. یعنی اللہ بے نیاز ہے‘ اس کو کسی کی احتیاج نہیں. کوئی اسے مان لے تو اس کی بادشاہی میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا اورکوئی انکار کر دے تو اس کی جلالت ِ شان میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی. یہ تو اس کا کرم ‘اس کا فضل اور اس کی عنایت و رحمت ہے کہ اس نے انسانوں کی ہدایت کے لیے ان ہی میں سے رسول مبعوث فرمائے‘ جنہیں اپنی ہدایت ِ کاملہ سے سرفراز فرمایا اور جن پر اپنی کتاب نازل کی. اب اگر کوئی ناقدری کرے اور انکار و اعراض کی روش اختیار کرے تو اس سے اللہ کا کچھ نہیں بگڑتا‘ اس لیے کہ ان سے اللہ کی کوئی غرض وابستہ نہیں ہے. البتہ اس کا فوری نقصان اور خسارہ ان ناشکروں اور نافرمانوں کو یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی نظر ِ عنایت اور نگاہِ التفات کا رُخ ان کی جانب سے پھیر لیتا ہے اور اپنی شانِ بے نیازی کا اظہار فرماتاہے. اور ظاہر ہے کہ یہ بے نیازی کا جامہ تو صرف اسی کی ذات پر راست آتا ہے‘ اس لیے کہ وہ ’’الغنی‘‘ بھی ہے اور ’’الحمید‘‘ بھی!