یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ رسالت کے باب میں ایک گمراہی کا ظہور تو اس طرح ہوتا ہے کہ لوگ رسول کی رسالت کو اس دلیل سے ردّ کر دیتے ہیں کہ یہ تو ہمارے ہی جیسا انسان ہے. گویا رسول کی بشریت قبولِ حق میں مانع ہو جاتی ہے‘ جس کا مفصل ذکر اس آیت میں آ گیا . لیکن یہ معاملہ یہیں پر ختم نہیں ہو جاتا ‘بلکہ اسی مرض کا ظہور رسولوں کی اُمتوں میں بعد میں ایک دوسری شکل میں ہوتا ہے اور وہ یہ کہ بہت سے لوگ محبت اور عقیدت کے غلو کے باعث نبیوں اور رسولوں کی بشریت کا انکار کر دیتے ہیں. گویا بنیادی طور پر مرض وہی ہے کہ بشریت اور نبوت و رسالت میں لوگوں نے بُعد اور تضاد محسوس کیا اور اس سبب سے ایک جانب منکروں اور کافروں نے رسول کی بشریت کی بنیاد پر اس کی رسالت کی نفی کر دی اور اس کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا‘ اور دوسری جانب غالی اُمتیوں نے رسولوں کی رسالت کی بنیاد پراُن کی بشریت کا انکار کر دیا‘ یہاں تک کہ بعض انبیاء و رُسل کو خدا کا بیٹا قرار دے کر الوہیت میں شریک کر دیا گیا. جیسے یہود کے ایک گروہ نے حضرت عزیرعلیہ السلام کو خدا کا بیٹا قرار دیا ‘اور پال کے متبعین نے تو حد ہی کر دی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا صُلبی بیٹا قرار دے کر مستقل تثلیث ایجاد کر لی. گویا ذہنی مرض اور گمراہی ایک ہی ہے‘ البتہ اس کے ظہور کی شکلیں مختلف ہیں. یعنی رسولوں کی موجودگی میں بشریت کی بنیاد پر رسالت کا انکار اور بعد میں رسالت کی بنیاد پر بشریت کا انکار!