سورۃ التغابن کے پہلے رکوع کی مختصر تشریح و توضیح ختم ہوئی. اس رکوع میں سب سے پہلے اللہ کی ہستی‘ اس کی توحید اور اس کی صفاتِ کمال پر آیاتِ آفاقی کی شہادت کو اس پیرائے میں بیان کیا گیا ہے کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ کی تسبیح کر رہا ہے. اور پھر اس کی جلالت ِ شان اور اس کی بعض صفاتِ کمال خصوصاً’’ قدرت‘‘ اور ’’علم ‘‘کابیان ہوا. پھر رسالت کے ذیل میں رسولوں کی تکذیب کرنے والی قوموں کے عذابِ الٰہی سے ہلاک ہونے کا بیان بھی آ گیا اور رسالت کے باب میں ان کی اصل گمراہی کی نشاندہی بھی کر دی گئی کہ انہوں نے بشریت اور نبوت و رسالت کو ایک دوسرے کی ضد خیال کیا. اس کے بعد منکرینِ بعث بعد الموت کی شدت کے ساتھ تردید اور بعث بعد الموت‘ حشر و نشر اور جزاو سزا کا بیان اور اس حقیقت کی وضاحت ہوئی کہ اصل ہار جیت اور کامیابی و ناکامی کا فیصلہ قیامت کے دن ہوگا. ساتھ ہی اللہ تعالیٰ‘ اُس کے رسول اور قرآن مجید پر ایمان کی پُر زو ر دعوت بھی آ گئی. اللہ تعالیٰ ہم سب کو حقیقی ایمان نصیب فرمائے ‘ ہمارے قلوب و اذہان کو ایمان کے حقیقی نور سے منور فرمائے اور ہمیں آخرت کی فوز و فلاح سے بہرہ ور فرمائے. آمین یا ربّ العالمین!

گزشتہ صفحات میں سورۃ التغابن کے پہلے رکوع کا مطالعہ مکمل ہو چکا ہے. چنانچہ اس رکوع کی کُل دس آیتوں میں سے پہلی سات آیات میں ایمانیات ِ ثلاثہ یعنی توحید‘ معاد اور رسالت کا بیان بھی ہو چکا ہے اور بقیہ تین آیات میں ایمان کی نہایت مؤثر اور زوردار دعوت بھی آ چکی ہے. اس رکوع کے مضامین کی تقسیم و ترتیب کے ضمن میں ایک نہایت حسین توازن ہمارے سامنے آتا ہے‘ اور وہ یہ کہ جہاں ایمان کے بیان میں چار آیات توحید کے لیے وقف ہیں اور رسالت اور معاد دونوں کوتین آیات میں سمو لیا گیا ہے‘ وہاں دعوتِ ایمان کے ضمن میں توحید و رسالت پر ایمان کی دعوت صرف ایک آیت میں آ گئی ہے‘ جبکہ ایمان بالآخرت کے لیے نہ صرف یہ کہ دو نہایت عظیم اور پُر جلال آیات کلیتاً وقف ہیں بلکہ اس کا ذکر ضمنی طور پر توحید و رسالت پر ایمان کی دعوت والی آیت کے اختتام پر بھی موجود ہے اور اس کا سبب وہی ہے جس کی جانب اس سے قبل بھی اشارہ کیا جا چکا ہے‘ یعنی یہ کہ اگرچہ علمی اور نظری اعتبار سے اصل ایمان‘ ایمان باللہ ہے‘ لیکن عملی اعتبار سے سب سے زیادہ مؤثر ایمان‘ ایمان بالآخرت ہے. اس عکسی ترتیب کاایک اضافی فائدہ یہ ہوا کہ چونکہ دوسرے رکوع میں ایمان کے عملی تقاضوں کا بیان آ رہا ہے‘ لہذا پہلے رکوع کے اختتام پر ایمان بالآخرت کی نہایت مؤثر تاکید اس کے لیے حد درجہ مناسب تمہید بن گئی!