اب آیئے دوسرے رُخ یعنی ان اَفعال و اعمال کی طرف جو ہم سے صادرہوتے ہیں‘ اور ان میں سے بھی اصلاً وہ جو ہمارے ارادے کے تابع ہیں. اس لیے کہ ہمارے جسم کے بہت سے اعضاء تو وہ ہیں جو اپنے فطری وظائف از خودادا کرتے رہتے ہیں اور ان کے فعل میں ہمارے شعور اور ارادے کا دخل نہیں ہوتا. ایسے غیر ارادی افعال کے ضمن میں ظاہر ہے کہ ہماری کوئی اخلاقی مسئولیت نہیں ہے. لیکن ہماری زندگی کی اصل باگ ڈور جن ارادی اور اختیاری افعال و اعمال سے عبارت ہے ان کے ضمن میں ایمان کا جو لازمی نتیجہ نکلنا چاہیے اس میں مقدّم ترین شے ہے اطاعت یعنی یہ کہ ہمارے اعضاء و جوارح سے کوئی عمل اللہ کے حکم کے خلاف صادر نہ ہو‘ اس لیے کہ اگر ہم اللہ پر ایمان لانے کے مدّعی ہیں اور ہم نے دلی یقین کے ساتھ اللہ کو مانا ہے تو ہم پر لازم اور واجب ہے کہ ہم کوئی ایسا کام اور کوئی ایسی حرکت نہ کریں جس سے اللہ کا کوئی حکم ٹوٹتا ہو یا اس کی نافرمانی کا ارتکاب ہوتا ہو.چنانچہ ہماری زبان سے کوئی ایسا لفظ نہ نکلے جو اللہ کو ناپسند ہو اور ہمارے ہاتھ پاؤں کسی ایسے کام کے لیے حرکت میں نہ آ جائیں جو حکمِ خداوندی کے خلاف ہو.
پھر معاملہ صرف اللہ کا نہیں بلکہ اس کے رسول حضرت محمدﷺ کا بھی ہے. اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایت ہر انسان کے پاس براہِ راست نہیں بھیجی. اس دنیا میں ہدایتِ ربّانی کا ذریعہ رسول ہوتے ہیں ‘ لہذا اللہ کی اطاعت اس کے رسولؐ کے واسطے سے ہی ممکن ہے. چنانچہ اطاعت کے باب میں اللہ اور اس کارسولؐ باہم اس طرح جمع ہیں گویا وہ ایک وحدت ہیں. لہذا اگلی آیت کے پہلے حصے میں ارشاد ہوا: وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ ۚ ’’اور اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو (اس کے) رسول(ﷺ ) کی‘‘. گویا مدعیانِ ایمان سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ جب تم نے مانا ہے اللہ اور اس کے رسولﷺ کو تو اس ایمان کا لازمی نتیجہ یہ نکلنا چاہیے کہ تمہارے اعضاء و جوارح سے جو بھی اعمال و افعال صادر ہوں وہ سب کے سب اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہوں. یہ ایمان کا دوسرا لازمی نتیجہ ہے.
اطاعت کے حکم کے ساتھ ہی یہ تنبیہ بھی فرما دی کہ : فَاِنۡ تَوَلَّیۡتُمۡ فَاِنَّمَا عَلٰی رَسُوۡلِنَا الۡبَلٰغُ الۡمُبِیۡنُ ﴿۱۲﴾ ’’پھر اگر تم نے روگردانی کی (پیٹھ موڑ لی‘ اعراض کیا) تو (جان رکھو کہ) ہمارے رسولؐ پر تو صرف صاف صاف پہنچا دینے کی ذمہ داری ہے‘‘. اللہ اور اس کے رسولﷺ کی تعلیمات سے روگردانی اور ان کی تکذیب سے اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگڑتا‘ انسان خود اپنی عاقبت خراب کرتا ہے اور آخرت میں سزا و عذاب کا مستوجب قرار پاتا ہے.اسی طرح رسولؐ پر بھی سوائے صاف صاف پہنچا دینے کے اور کوئی ذمہ داری نہیں ہے. لہذا اگر رسولؐ نے اپنی یہ ذمہ داری پوری کر دی ہے تو وہ آخرت میں سرخرو ہوں گے‘ اس لیے کہ وہ تمہاری جانب سے جواب دہ نہیں‘ تمہیں اپنے اعمال و افعال کی خود جواب دہی کرنی ہو گی‘ اپنے بھلے برے ‘ اپنے نفع و نقصان اور اپنی کامیابی یا ناکامی کے ذمہ دار تم خود ہو گے!