انسان اس دنیا میں تنہا نہیں رہتا. مدنیت اس کی جبلت اور طبیعت میں رچی بسی ہے. لہذا وہ اس دنیا میں بہت سے تعلقات میں جکڑا ہوا ہے جن کے کئی دائرے ہیں. ایک دائرہ اس کے والدین‘ بھائی بہن اور بیوی بچوں کا ہے. دوسرے دائرے میں رشتہ دار اور اعزّہ و اقارب ہیں. پھر کنبے اور قبیلے کا دائرہ اور اس کے بعد قوم کا دائرہ ہے اور بالآخر یہ سلسلہ پوری نوعِ انسانی تک پھیل جاتا ہے. ان سب کو ایک لفظ میں جمع کیا جائے تو وہ ہے ’’علائقِ دُنیوی‘‘. اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں تمدن و تہذیب کی گاڑی کو چلانے کے لیے ان علائقِ دُنیوی کے ضمن میں بہت سی فطری محبتیں انسان کے دل میں ڈال دی ہیں. انسان کو والدین‘ بہن بھائیوں‘ بیوی ‘ اولاد اور رشتہ داروں سے محبت ہوتی ہے. لیکن واقعہ یہ ہے کہ ان محبتوں میں سب سے زیادہ قوی محبت بیویوں اور اولاد کی محبت ہے. اس طبعی محبت کی طرف اگلی آیت میں متنبہ فرمایا گیا کہ اگر اس میں حدِّ اعتدال سے تجاوز ہو جائے تو یہی محبت انسان کے لیے دشمنی کا روپ دھار لے گی. لہذا اس کے ضمن میں احتیاط کی ضرورت ہے. ارشاد ہوتا ہے: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّ مِنۡ اَزۡوَاجِکُمۡ وَ اَوۡلَادِکُمۡ عَدُوًّا لَّکُمۡ فَاحۡذَرُوۡہُمۡ ۚ ’’اے اہلِ ایمان! یقینا تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں‘ پس ان سے ہوشیار رہو!‘‘
یہ انتباہ اس لیے ضروری ہے کہ فی الواقع ان محبتوں میں انسان کے لیے بالقوہ خطرہ موجود ہے‘ اس لیے کہ اگر آخرت نہ ہوتی اور حساب کتاب نہ ہوتا اور کوئی جواب دہی نہ ہوتی تب تو کوئی تشویش کی بات نہ ہوتی. اس صورت میں توانسان کو کھلی چھٹی ہوتی کہ بیویوں کی فرمائشیں پوری کرے‘ خواہ حلال سے کرے‘ خواہ حرام سے کرے‘ اولاد کو اچھے سے اچھا کھلائے اور پہنائے اور ان کو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دلانے کی فکر کرے‘ چاہے جائز ذرائع آمدنی سے ہو‘ چاہے ناجائز ذرائع آمدنی سے ہو لیکن جب یہ حقیقت سامنے آ چکی ہے کہ یہ زندگی تو بہت عارضی اور مختصر ہے‘ اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے جسے کبھی ختم نہیں ہونا اور اصل فیصلے کا دن تو قیامت کا دن ہے‘ یعنی وہی ہے ہار اور جیت کے فیصلے کا دن! پس اگر اس حقیقت کو جاننے کے بعد بھی تم نے اپنی بیویوں اور اولاد کی محبت سے مغلوب ہو کر اور ان کی خوشنودی کی خاطر اللہ کی حرام کردہ چیزوں میں مُنہ مارا‘ ناجائز آمدنیوں کا رُخ کیا اور ان کو عیش کرانے اور ان کی فرمائشیں پوری کرنے کے لیے تم نے حلال و حرام کی تمیز کو ختم کر دیا اور جائز و ناجائز کا خیال نہ رکھا تو جان لو کہ یہ تمہارے حق میں محبت نہیں‘ دشمنی ہے‘ اور اگر تم محتاط‘ چوکس اور چوکنے نہ رہے تو یہی بے جا محبت اور لاڈ پیار تمہاری عاقبت کی بربادی کا سبب بن جائے گا. چنانچہ نبی اکرمﷺ کا ارشادِ مبارک ہے کہ: ’’بڑا ہی نادان ہے وہ شخص جس نے دوسروں کی دنیا بنانے کے لیے اپنی عاقبت تباہ و برباد کر لی‘‘.
آیت کے دوسرے حصے میں ارشاد ہوتا ہے: وَ اِنۡ تَعۡفُوۡا وَ تَصۡفَحُوۡا وَ تَغۡفِرُوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۴﴾ ’’اور اگر تم معاف کر دیا کرو اور چشم پوشی سے کام لو اور بخش دیا کرو تو بے شک اللہ بھی بخشنے والا رحم کرنے والا ہے‘‘. آیت کے اس حصے میں جہاں فصاحت و بلاغت کا کمال سامنے آتا ہے وہاں صحیح اور معتدل رویّہ اختیار کرنے کی نہایت پُرزور اور مدلّل دعوت بھی سامنے آتی ہے.چنانچہ جہاں اس پرزور دیا گیا کہ تمہاری بیویوں اور اولاد میں سے بعض تمہارے حق میں بالقوہ دشمن ہیں‘ لہذا اپنا تحفظ کرو کہ کہیں ان کی محبت تمہیں جادۂ حق سے منحرف نہ کر دے اور تمہاری عاقبت تباہ نہ کرا دے‘ وہاں دوسری طرف اس کو متوازن کیا گیا کہ ایسا نہ ہو کہ تمہارے مزاج میں خشونت‘ درشتی اور سختی کا غلبہ ہو جائے اور گھر میدانِ جنگ کا سماں پیش کرنے لگے‘ اور محبت‘ شفقت اور نرمی کا ظہور بالکل نہ ہو. لہذا اس اعتبار سے تو ضرور چوکس اور چوکنے رہو کہ ان کی محبت کہیں غفلت میں تم سے دین کے خلاف کوئی کام نہ کرا لے‘ لیکن ان کی صحیح تربیت کے لیے محبت‘ شفقت اور نرمی لازمی ہے‘ لہذا عفو اور درگذر بھی ضروری ہے!
یہاں غور کیجیے کہ اس عفو و درگذر کے لیے دلیل کیا دی جا رہی ہے !اور پھر اس میں کتنی مؤثر اپیل مضمر ہے! یعنی یہ کہ اللہ بھی تو غفور اور رحیم ہے‘ ذرا سوچو کہ اللہ نے تم کو کتنی ڈھیل دے رکھی ہے. اپنے باطن میں جھانک کر دیکھو کہ کتنے مفاسد لیے پھر رہے ہو‘ لیکن اللہ پھر بھی چشم پوشی کیے ہوئے ہے اور تمہیں مہلت دے رہا ہے اور اس کی ربوبیت اور جُود و سخا کا سلسلہ جاری ہے‘ لہذا تم کو بھی چاہیے کہ اپنی بیویوں اور اولاد کے لیے یہی رویہ اختیار کرو.
میرے نزدیک یہ آیت قرآن حکیم کے ان خاص مقامات میں سے ہے جہاں ذہنِ انسانی بے اختیار یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یہ اللہ کے سوا کسی اور کا کلام نہیں ہو سکتا ‘ اس لیے کہ یہ توازن اور اعتدال صرف اللہ تعالیٰ ہی کے کلام میں ممکن ہے الغرض یہ آیتِ مبارکہ جملہ علائقِ دُنیوی کے ضمن میں ایک بندۂ مؤمن کے زاویۂ نگاہ اور اندازِ فکر کے ساتھ اس کے عملی رویے کو بھی متعین کر دیتی ہے. اس لیے کہ جب محبوب ترین علائق کے ضمن میں ہدایت مل گئی تو علائقِ دُنیوی کے دوسرے دائرے تو بہرحال ان کے مقابلے میں ثانوی حیثیت کے حامل ہیں.