اس دنیا میں علائقِ دُنیوی کے ساتھ جس دوسری چیز سے انسان بندھا ہوا ہے وہ مال و اسبابِ دُنیوی ہیں جن سے انسان کی حیاتِ دُنیوی کی ضروریات پوری ہوتی ہیں. یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم میں ایک دوسرے مقام پر (سورۃ النساء:۵) انہیں حیاتِ دُنیوی کے بقاء اور قیام کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے‘ لہذا ان سے ایک طبعی اور قدرتی لگاؤ بھی انسان کی جبلّت کا جزوِ لاینفک ہے. لیکن اگر اس طبعی لگاؤ میں شدت پیدا ہو جائے اور یہ چیزیں فی نفسہٖ محبوب اور مطلوب و مقصود بن جائیں تو آخرت اور عاقبت کے اعتبار سے ان سے زیادہ مضر اور تباہ کن اور کوئی چیز نہیں ہوتی پھر اپنے دُنیوی مستقبل کے لیے انسان جس طرح پس انداز اور جمع شدہ مال پر تکیہ کرتا ہے ایسے ہی اولاد سے بھی امیدیں لگاتا ہے. لہذا اس مقام پر مال کے ساتھ اولاد کا ذکر دوبارہ کر دیا گیا کہ ہوشیار رہو کہ ان دونوں کی محبت تمہارے حق میں فتنہ ہے. چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : اِنَّمَاۤ اَمۡوَالُکُمۡ وَ اَوۡلَادُکُمۡ فِتۡنَۃٌ ؕ ’’بلاشبہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد (تمہارے حق میں) فتنہ ہیں‘‘ فتنہ کے لغوی معنی ’’کسوٹی‘‘ کے ہیں. یعنی وہ چیز جس پر پرکھ کر دیکھا جاتا ہے کہ سونا خالص ہے یا اس میں کھوٹ اور ملاوٹ ہے. چنانچہ اہل ایمان کو بتایا جا رہا ہے کہ اس دنیا میں مال اور اولاد تمہارے لیے کسوٹی ہیں‘ یعنی تمہاری آزمائش کا ذریعہ ہیں اور ان پر تم کو پرکھا جا رہا ہے کہ کہیں تم ان کی محبت سے مغلوب ہو کر اللہ کو بھول تو نہیں جاتے اور اس کے اوامر و نواہی سے بے پروا ہو کر اپنی عاقبت تو خراب نہیں کر لیتے !
اس آیت کا اختتام ان الفاظِ مبارکہ پر ہوتا ہے :
وَ اللّٰہُ عِنۡدَہٗۤ اَجۡرٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱۵﴾
’’اور اللہ ہی کے پاس ہے اجرِ عظیم!‘‘
گویا امیدیں وابستہ کرنی ہیں تو اللہ سے کرو‘ امیدوں کو بر لانے والا‘ توقعات کو پورا کرنے والا اور تمہاری محنت کی صحیح اجرت دینے والا تو حقیقت میں صرف اللہ ہی ہے. لہذا اپنی ذاتی صلاحیتوں اور قوتوں کے علاوہ اپنے مال اور اپنی اولاد کو بھی اسی کی راہ میں لگاؤ. عام طو رپر انسان کی تمام توانائیاں اور اس کا کُل وقت یا زیادہ سے زیادہ وقت مال و دولت جمع کرنے کی خاطرصرف ہوتاہے یا اولاد پر صرف ہو جاتا ہے‘ اور انسان توقع کرتا ہے کہ اولاد اس کے بڑھاپے کاسہارا بنے گی. جبکہ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ انسان مال و اسبابِ دُنیوی کو صرف حیاتِ دُنیوی کی ضروریات پوری کرنے کا ذریعہ سمجھے اور اس سے دلی محبت نہ رکھے اور اولاد کی پرورش اور تعلیم و تربیت کو بھی اللہ کی طرف سے عائد شدہ ذمہ داری کی حیثیت سے ادا کرے‘ نہ کہ طبعی محبت کی بنیاد پر‘ یا اسے اپنے مستقبل اور بڑھاپے کا سہارا سمجھ کر اور اپنی سعی وجہد کا اصل مطلوب و مقصود اللہ کی رضا جوئی اور آخرت کی فلاح کوقرار دے.