عام طو رپر ’’تقویٰ‘‘ کا ترجمہ ’’خوف‘‘یا ’’ڈر‘‘ کے الفاظ سے کر دیا جاتا ہے‘ حالانکہ یہ ’’تقویٰ‘‘ کے معنی و مفہوم کی صحیح اور کامل ترجمانی نہیں ہے. ڈر یا خوف ایک تو ہوتا ہے کسی خطرناک‘ خوفناک اور ڈرائونی شے کا ‘ توتقویٰ سے یہ ڈر مراد نہیں. اور ایک خوف اور ڈر وہ ہوتا ہے جس میں محبت کی آمیزش اور چاشنی بھی موجود ہوتی ہے‘ یعنی محبت بھرا خوف. یہ خوف تقویٰ کی کسی حد تک صحیح ترجمانی ہے. بغرضِ تفہیم مثال پیشِ خدمت ہے کہ جیسے آپ کو اپنے والد سے محبت ہے اور آپ نہیں چاہتے کہ آپ کے والد آپ سے ناراض ہوں یا آپ کے کسی کام سے ان کی دل شکنی ہو یا ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچے.اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپ کوئی ایسا کام نہیں کرتے جو آپ کے والد کو ناپسند ہو. گویا آپ اپنے والد کی ناراضگی کے خوف سے اُن کاموں کے ارتکاب سے احتراز کرتے ہیں جو انہیں ناپسند ہوں‘ پس آپ کے اس محبت بھرے خوف کو ’’تقویٰ‘‘ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے. گویا اللہ کا تقویٰ یہ ہے کہ انسان اپنی پوری زندگی میں پھونک پھونک کر قدم رکھے اور اس کے قلب اور ذہن پر ہر وقت یہ خیال مستولی رہے کہ میرے کسی قول اور میرے کسی عمل سے میرا خالق و مالک مجھ سے ناراض نہ ہو جائے‘ اور اسے ہر وقت یہ فکر دامنگیر رہے کہ کوئی ایسا کام نہ کر بیٹھوں جو میرے ربّ کو پسند نہ ہو. یہ کیفیت‘ یہ طرزِ عمل‘ یہ رویہ اور یہ اندازِ فکر تقویٰ کی اصل حقیقت ہے!

قرآن حکیم میں سورۂ آل عمران کی آیت ۱۰۲ میں تقویٰ کے ضمن میں یہ شدید تاکید آئی ہے کہ : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ.... ’’اے اہل ایمان! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جتنا کہ اس کے تقویٰ کا حق ہے‘‘ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بڑے ہی مضطرب اور پریشان ہو گئے تھے کہ اللہ کا اتنا تقویٰ جتنا اس کا حق ہے‘ کون اختیار کر سکتا ہے!! بالکل ایسے جیسے کہ اللہ کی اتنی معرفت حاصل کرنا جتنی کہ اس کا حق ہے ‘کسی انسان کے بس میں نہیں ہے. چنانچہ رسولِ کامل اور عارفِ اعظم حضرت محمدٌ رسول اللہ خود فرماتے ہیں: مَا عَبَدْنَاکَ حَقَّ عِبَادَتِکَ وَمَا عَرَفْنَاکَ حَقَّ مَعْرِفَتِکَ ’’(اے اللہ!) ہم تیری بندگی نہ کر پائے جیسا کہ تیری بندگی کا حق ہے‘ اور ہم تجھے پہچان نہ سکے جیسا کہ تجھے پہچاننے کا حق ہے‘‘. تو اگرچہ آنحضور کے بارے میں تو یہی گمان ہے کہ یہ کلمات آپؐ نے بربنائے تواضع ارشاد فرمائے‘ لیکن کسی بھی دوسرے انسان کے بارے میں تو اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ اللہ کی ’’کماحقّہٗ‘‘ معرفت کا حصول اس کے دائرۂ اختیار اور حدِّ امکان سے خارج ہے! یہی معاملہ تقویٰ کا ہے. اللہ کا اتنا تقویٰ جتنا اس کے تقویٰ کا حق ہے‘ یہ کسی انسان کے بس کی بات نہیں ہے‘ اس لیے کہ اس کا تقاضا تو یہ ہو گا کہ ہم ایک لمحہ کے لیے بھی اللہ کی یاد سے غافل نہ ہوں‘ اور ہروقت شعوری طور پر چوکنے اور چوکس رہیں کہ ہمارے اعضاء و جوارح سے کہیں اور کبھی کوئی ایسی حرکت صادر نہ ہونے پائے جو اللہ کے کسی حکم یا منشا کے خلاف ہو. لہذا اس پر صحابہؓ ‘کی تشویش بالکل بجا تھی. البتہ جب سورۃ التغابن کی یہ آیت نازل ہوئی کہ فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسۡتَطَعۡتُمۡ ’’پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جتنا تمہارے امکان اور حدِّ استطاعت میں ہے‘‘ تب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو تسکین حاصل ہوئی!

واضح رہے کہ یہی بات سورۃ البقرۃ میں بھی ایک قاعدہ کلیہ کے طور پر وارد ہوئی ہے کہ : لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَہَا ؕ (آیت ۲۸۶’’اللہ کسی نفس کو مکلف نہیں ٹھہراتا مگر اُس کی وسعت کے مطابق‘‘. اور یہی اصول سورۃ المؤمنون میں بھی وارد ہوا ہے کہ : وَ لَا نُکَلِّفُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَہَا (آیت ۶۲’’اور ہم کسی نفس کو مکلف نہیں ٹھہراتے مگر اُس کی وسعت کے مطابق‘‘.البتہ اس مقام پر تھوڑا سا توقف کر کے استطاعت‘ استعداد اور وسعت کے بارے میں ایک اصولی بات سمجھ لینی چاہیے اور وہ یہ کہ کسی انسان میں کتنی استطاعت و استعداد اور وسعت و طاقت ہے جس کے مطابق وہ مکلف او رجواب دہ ہے‘ اس کا صحیح شعور و ادراک بسا اوقات اسے خود نہیں ہوتا. بنا بریں وہ اپنے آپ کو دین کے عملی تقاضوں کے ضمن میں رعایتیں دیتا چلا جاتا ہے اور دین کی جانب سے عائد ہونے والی مشکل اور کٹھن ذمہ داریوں سے خود کو بالکل ہی بری ٹھہرا لیتا ہے‘ حالانکہ اللہ تعالیٰ جو فاطرِ فطرت ہے‘ انسان کا خالق ہے اور اس کا علم کامل ہے‘ وہ خوب جانتا ہے کہ اس نے اس میں کتنی استطاعت‘ استعداد اور وسعت رکھی ہے. چنانچہ وہ ہر انسان کا اسی کے مطابق محاسبہ اور مؤاخذہ فرمائے گا. بلکہ اس معاملے میں واقعہ یہ ہے کہ ہم ؏ ’’دیوانہ بکارِ خویش ہشیار!‘‘کے مصداق اپنے آپ کو دھوکہ دیتے رہتے ہیں کہ جب دین اور نیکی کے کام کی بات ہوتی ہے یا تبلیغ و دعوت کی بات ہوتی ہے یا دین کے دوسرے عملی تقاضے اور مطالبے ادا کرنے کی بات ہوتی ہے تو ہم عذر پیش کردیتے ہیں کہ ہم میں اس کی استطاعت و استعدادنہیں ہے‘ جبکہ دنیا کے معاملات میں ہماری جولانیاں اظہر من الشمس ہوتی ہیں اور ہماری توانائیوں‘ ہماری تگ و دَو اور ہماری اہلیت و صلاحیت کا نتیجہ بھرپور طور پر سامنے آ رہاہوتا ہے. 

حقیقت میں یہ ایک فریب ہے جو انسان اپنے آپ کو دیتا ہے. اس لیے کہ اگر ایک شخص دنیا میں پھل پھول رہا ہے‘ اس کے جوہر نمایاں ہو رہے ہیں اور وہ دُنیوی امور میں دوسروں سے آگے نکل رہا ہے اور ترقی پر ترقی کرتا چلا جا رہا ہے تو یہ استطاعت و استعداد کے بغیر ممکن نہیں ہے. لامحالہ اس میں ذہانت‘ صلاحیت‘ قوتِ کار‘ وسعتِ عمل اور جذبۂ محنت و مسابقت موجود ہے‘ تب ہی تو وہ آگے سے آگے نکلتا جا رہاہے. لہذا صحیح روش اور درست رویہ یہ ہوگا کہ بِرّ و تقویٰ کے تقاضوں اور دینی 
ذمہ داریوں کی ادائیگی کے ضمن میں آگے بڑھنے کی شعوری طور پر اور امکان بھر کوشش کی جائے اور اس میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ رہنے دیا جائے اور اپنی امکانی حد تک نہ کوئی تساہل ہو اور نہ ہی کسی فراری ذہنیت کو بروئے کار آنے دیا جائے. البتہ یہ بات بالکل ظاہر و باہر ہے کہ اس سب کے باوجود انسان اتنا ہی آگے بڑھ سکے گا جتنی اللہ تعالیٰ نے اس میں استطاعت و وسعت رکھی ہے‘ اگرچہ جب تک انسان اس کے لیے شعوری طو رپر عزمِ مصمم کے ساتھ کوشش نہیںکرے گا اُس وقت تک یہ ظاہر ہی نہیں ہو سکے گا کہ اس میں وسعت ‘ صلاحیت اور استطاعت کتنی ہے! رہا محاسبۂ اُخروی کا معاملہ تو وہ یقینا ہر شخص کی وسعت و استطاعت کی بنیاد ہی پر ہو گا جس کا صحیح علم اللہ کو حاصل ہے. چنانچہ وہ اسی کے مطابق فیصلہ فرمائے گا کہ کسی شخص نے اس وسعت و استعداد کے مطابق جو اسے دی گئی تھی‘ دین کے مقتضیات و مطالبات پورے کرنے کی کس حد تک محنت اور کوشش کی.

تقویٰ کے مفہوم کی بہترین تعبیر کے ضمن میں دورِ خلافتِ فاروقی ؓ کا ایک بڑا عجیب واقعہ ملتا ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک بار اکابر صحابہ رضوان اللہ علیہم 
اجمعین کی محفل میں یہ سوال کیا کہ ’’تقویٰ‘‘ کی جامع و مانع تعریف کیا ہے؟ اس کے جواب میں حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ نے جو وضاحت پیش فرمائی اس کا مفہوم یہ ہے کہ :’’امیر المؤمنین! جب کسی شخص کو جنگل کی ایسی پگڈنڈی سے گذرنے کا اتفاق ہوجس کے دونوں اطراف میں خاردار جھاڑیاں ہوں تو ایسی پگڈنڈی پر گذرتے وقت وہ شخص لامحالہ اپنے کپڑوں کو ہر طرف سے سمیٹ کر اُس راستہ کو اس طرح طے کرنے کی کوشش کرتا ہے اور سنبھل سنبھل کر پھونک پھونک کر قدم اٹھاتا ہے کہ اس کے کپڑے جھاڑیوں اور کانٹوں سے الجھنے نہ پائیں. اس احتیاطی رویّے اور بچ بچ کر چلنے کو ’’تقویٰ‘‘ کہتے ہیں.‘‘

فاروقِ اعظمؓ نے اس تعریف کی تصویب و توثیق فرمائی اور حضرت اُبی بن کعب کو داد دی. حقیقت اور امرِ واقع یہی ہے کہ اس دنیا میں ہم جو زندگی بسر کر رہے ہیں یہ بھی ایک سفر ہی ہے اور یہاں ہر چہار طرف گناہ‘ معصیت اور شہوات و لذّات کی نہایت خاردار جھاڑیاں موجود ہیں‘ چنانچہ ہر ہر قدم پر گناہ کی ترغیب ہے‘ معصیت کی تحریک ہے اور طرح طرح کے ظلم و اثم اور طغیان و عدوان کی دعوت موجود ہے! اب اگر انسان ان جھاڑیوں سے بچ کر نکل جائے اور اپنے دامن کو اِن میں اُلجھنے نہ دے اور اس دُنیوی سفر کو اس طرح طے کرنے کی کوشش کرے کہ اس کے دامن پر معصیت کا کوئی داغ دھبہ نہ پڑنے پائے تو اس روش‘ اس رویے اور اس طرزِ عمل کو تقویٰ سے تعبیر کیا جاتا ہے. ظاہر ہے کہ یہ ایمان کا اوّلین تقاضا ہے!