زیر مطالعہ آیت کی تیسری اور آخری بات کا تعلق ایمان بالآخرت سے ہے. ارشاد ہوتا ہے : (۱) سنن الترمذی‘ کتاب الجھاد عن رسول اللہ ‘ باب ما جاء لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق.ومسند احمد. (الفاظ مسند احمد کے ہیں.) وَ اَنۡفِقُوۡا خَیۡرًا لِّاَنۡفُسِکُمۡ ؕ ’’اور خرچ کرو (اللہ کی راہ میں) اسی میں تمہاری بھلائی مضمر ہے!‘‘ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا غرباء‘ فقراء‘ مساکین اور یتامیٰ کے لیے بھی ہے اور اللہ کے دین کے لیے بھی! اس کا ایمان بالآخرت کے ساتھ بڑا گہرا مگر لطیف تعلق ہے‘ اس لیے کہ جسے آخرت پر یقین حاصل ہو وہ جو مال اللہ کے لیے صرف کرے گا اس کے بارے میں اسے یہ اطمینان ہو گا کہ یہ مال محفوظ ہوگیا‘ گویا اللہ کے بینک میں جمع ہو گیا.اب یہ بات بالکل ظاہر و باہر اور حتمی و یقینی ہے کہ اگر کسی شخص نے اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کا بیشتر اور بہتر حاصل آخرت کے بینک میں جمع کرا دیا ہو تو ایسے شخص کی کیفیت موت کے وقت بالکل وہی ہو گی جو علامہ اقبال کے اس شعر میں بیان ہوئی ہے: ؎ 

نشانِ مردِ مؤمن با تو گویم
چو مرگ آید تبسّم بر لبِ اوست

یعنی مردِ مؤمن کی نشانی یہی ہے کہ جب موت کا وقت آتا ہے تو اس کے لبوں پر مسکراہٹ ہوتی ہے. اس لیے کہ اسے معلوم ہے کہ میں نے اپنے مال و دولت اور اپنی توانائیوں اور قوتوں کا بہت بڑا حصہ اللہ کے بینک میں جمع کرا رکھا ہے اور اب میں وہاں جا رہا ہوں جہاں میری بچت‘ میری کمائی اور میری توانائیوں کا حاصل جمع ہے. اناجیلِ اربعہ کے نام سے اِس وقت جو کتابیں موجود ہیں ان میں سے متی کی انجیل میں حضرت مسیح علیہ السلام کا ایک بڑا پیارا قول ملتا ہے کہ ’’اپنا مال زمین پر جمع نہ کرو جہاں کیڑا بھی خراب کرتا ہے اور چوری ڈاکے کا بھی خوف ہے‘ بلکہ آسمان پر جمع کرو جہاں نہ کیڑا خراب کرتا ہے‘ نہ چوری کا خوف ہے‘ نہ ڈاکے کا اندیشہ ہے. اور میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جہاں تمہارا مال ہو گا وہیں تمہارا دل بھی ہو گا‘‘. اس ضمن میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ایک واقعہ بھی بڑاعجیب اور پیارا ہے. ان کے یہاں ایک بکری ذبح ہوئی. نبی اکرم کو دستی کا گوشت بہت مرغوب تھا تو سیدہ صدیقہؓ نے ایک دستی بچا کر رکھ لی اور باقی سارا گوشت غرباء و مساکین میں تقسیم کر دیا. جب نبی اکرم تشریف لائے تو آپؐ نے دریافت فرمایا: مَا بَقِیَ مِنْھَا؟ ’’اس بکری میں سے کیا بچا؟‘‘ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے عرض کیا : مَا بَقِیَ مِنْھَا اِلاَّ کَتِفُھَا ’’اس میں سے کچھ نہیں بچا سوائے ایک دستی کے‘‘. اس پر رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: بَقِیَ کُلُّھَا غَیْرَ کَتِفِھَا (۱’’پوری بکری بچ گئی سوائے اس دستی کے!‘‘یعنی اس دستی کو تو ہم کھا لیں گے اور جو کھا لیا گیا وہ تو خرچ ہو گیا‘ البتہ جو اللہ کی راہ میں دے دیا (۱) سنن الترمذی‘ کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع . گیا وہ باقی رہنے والا ہے‘ وہ اصل بچت ہے. لہذا ایمان بالآخرت کے نتیجے میں انسان کے نقطۂ نظر میں یہ تبدیلی آنی چاہیے کہ جو کچھ اللہ کی راہ میں دے دیا ہے وہ حقیقی بچت ہے. یہی تعلیم و تلقین ہے ان الفاظِ مبارکہ میں کہ: وَ اَنۡفِقُوۡا خَیۡرًا لِّاَنۡفُسِکُمۡ ؕ ’’اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو‘ یہی تمہارے لیے بہتر ہے‘‘.

آگے متنبہ فرما دیا کہ اگر مال کی محبت تمہارے دل میں باقی رہی اور تمہیں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے روکتی رہی تو یہ بخل ہے. 
وَ مَنۡ یُّوۡقَ شُحَّ نَفۡسِہٖ یعنی ’’جو اس شُح سے‘ بخل سے‘ اپنے جی کے لالچ سے بچا لیا گیا‘‘وہی انفاق میں آگے بڑھ سکے گا‘ اور اس صورت میں وہ کامیابی و کامرانی اور فوز و فلاح سے ہمکنار ہو سکے گا. چنانچہ آیتِ مبارکہ کا اختتام ہوتا ہے ان الفاظِ مبارکہ پر : فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۱۶﴾ ’’پس یہی لوگ ہیں فلاح پانے والے‘‘. فلاح کسی کے منزلِ مقصود پر پہنچ جانے کو کہتے ہیں. تو یہاں واضح فرما دیا گیا کہ جو اس شُحِ نفس سے ‘ مال کی محبت اور جی کے لالچ سے بچا لیا گیا وہی آخری منزلِ مراد تک رسائی حاصل کر سکے گا!!

اگلی آیت میں انفاق پر ایک نہایت مؤثر اسلوب سے مزید زور دیا جا رہا ہے . ارشاد ہوتا ہے : اِنۡ تُقۡرِضُوا اللّٰہَ قَرۡضًا حَسَنًا یُّضٰعِفۡہُ لَکُمۡ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ؕ ’’اگر تم اللہ کو قرضِ حسن دو تو وہ اسے تمہارے لیے دوگنا کرتا رہے گا اور تمہاری بخشش فرمائے گا‘‘. اللہ کی راہ میں اگر انفاق کیا جائے‘ خرچ کیا جائے‘ مال لگایا اور کھپایا جائے تو اسے اللہ تعالیٰ ہماری حوصلہ افزائی اور قدر دانی کے لیے اپنے ذمے قرض سے تعبیر فرماتا ہے. واضح رہے کہ اللہ کی رضا کے لیے مال خرچ کرنے کی دو مدّات ہیں‘ ایک مدّ یہ ہے کہ اللہ کی مخلوق میں سے جو صاحب ِ احتیاج ہیں‘ یعنی غرباء و فقراء‘ یتامیٰ و مساکین‘ بیوائیں اور ایسے لوگ جو کسی سبب سے معاشی جدّو جہد میں پیچھے رہ گئے ہیں ان کی مدد کی جائے‘ اور دوسری مدّ یہ ہے کہ اللہ کے دین کی نصرت کے لیے خرچ کیا جائے. یعنی اس کے دین کی نشر و اشاعت اور دعوت کے لیے صرف کیا جائے اور دین حق کے غلبہ اور اقامت اور جہاد و قتال فی سبیل اللہ کی ضروریات کی فراہمی پر صرف کیا جائے. 

اگرچہ قرآن مجید میں اکثر و بیشتر مقامات پر ان دونوں مدّات کا ذکر مشترک انداز میں آتا ہے‘ لیکن جابجا ان کے لیے علیحدہ اصطلاحات بھی استعمال ہوتی ہیں. چنانچہ پہلی مدّ کے لیے بالعموم ’’ایتاءِ مال‘‘ اور ’’صدقہ‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے اور دوسری مدّ کے لیے عموماً ’’جہاد بالمال‘‘ اور 
’’انفاق فی سبیل اللہ‘‘ کی اصطلاحات اختیار کی جاتی ہیں‘ جیسے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اس طرح کے الفاظ آتے ہیں: وَ جَاہِدُوۡا بِاَمۡوَالِکُمۡ وَ اَنۡفُسِکُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ ’’اور جہاد کرو اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں‘‘. اور اسی کو اللہ تعالیٰ اپنے ذمے قرض سے بھی تعبیر فرماتا ہے‘ حالانکہ اس کائنات میں جو کچھ بھی ہے وہ اللہ ہی کا ہے‘جیسے کہیں فرمایا: وَ لِلّٰہِ مِیۡرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ (الحدید:۱۰’’اورآسمانوں اور زمین کی وراثت اللہ ہی کے لیے ہے‘‘. اور کہیں ارشاد ہوا: وَ لِلّٰہِ خَزَآئِنُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ (المنٰفقون:۷’’اور آسمانوں اور زمین کے جملہ خزانے اللہ ہی کے لیے ہیں‘‘. لیکن جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا‘ اللہ تعالیٰ اپنی راہ میں ہمارے اس انفاق کو اپنی قدر دانی کے اظہار اور حوصلہ افزائی کے لیے اپنے ذمہ قرضِ حسن قرار دیتا ہے. پھر دنیا کے قرضِ حسن میں تو صرف رأس المال کے واپس ملنے کی امید ہوتی ہے اور کسی اضافے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘ اس لیے کہ یہاں قرض پر اضافہ سود ہے جو ہمارے دین میں مطلقاً حرام ہے‘ لیکن انفاق کی شکل میں اللہ تعالیٰ کو جو قرضِ حسن دیا جاتا ہے اس کے بارے میں وہ وعدہ فرماتا ہے کہ وہ اسے بڑھاتا رہے گا اور اس میں اضافہ کرتا رہے گا. مزید برآں اس کی برکت سے تمہاری مغفرت فرمائے گا.

اس آیت کے اختتام پر اللہ تعالیٰ کی صفات کا ایک نہایت حسین و جمیل جوڑا آیا ہے اور اس میں قرآن کے عام اسلوب کے مطابق نہایت گہرا معنوی ربط ہے. ارشاد فرمایا: 
وَ اللّٰہُ شَکُوۡرٌ حَلِیۡمٌ ﴿ۙ۱۷﴾ ’’اور اللہ شکور (یعنی قدر دان) بھی ہے ‘حلیم (یعنی برد بار) بھی‘‘. یعنی اگر تم اللہ کی راہ میں انفاق کرتے ہو ‘ خرچ کرتے ہو تو وہ قدرافزائی فرمانے والا ہے‘ اور اس کے برعکس اگر بخل کرتے ہو‘ نفس کے شُح اور جی کے لالچ ہی میں مبتلا رہتے ہو اور اسی کا عطا کردہ مال اس کی راہ میں خرچ نہیں کرتے‘ بلکہ مال کو سینت سینت کر رکھتے ہو تب بھی وہ فوراً گرفت نہیں فرماتا‘ بلکہ ڈھیل دیتا ہے‘ کیونکہ وہ بڑا حلیم اور بڑا بُردبار ہے.

اس سورۂ مبارکہ کی آخری آیت بھی بڑی عجیب او ربہت پیاری ہے. ارشاد ہوتا ہے : 
عٰلِمُ الۡغَیۡبِ وَ الشَّہَادَۃِ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿٪۱۸﴾ ’’(وہ اللہ) چھپے اور کھلے سب کا جاننے والا ہے‘ زبردست ہے‘ کمالِ حکمت والا ہے!‘‘آیت کے آخر میں پھر دو اسمائے حسنیٰ جوڑے کی صورت میں آئے ہیں ‘ یعنی وہ ’’العزیز‘‘ بھی ہے اور ’’الحکیم‘‘ بھی. گویا ایک جانب اللہ غالب ہے‘ زبردست ہے‘ مختارِ مطلق ہے‘ اس کے اختیارات پر کوئی تحدید نہیں ہے‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ الحکیم بھی ہے‘ چنانچہ وہ جو کچھ کرتا ہے حکمت کے ساتھ کرتا ہے. پھر دیکھئے یہاں صفات و اسماء کے دو جوڑوں یعنی ’’شَکُوۡرٌ حَلِیۡمٌ ‘‘ اور ’’الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ‘‘ کے درمیان اللہ تعالیٰ کی صفتِ علم کا بیان ایک نئی شان کے ساتھ آگیا. یعنی وہ غائب و حاضر‘ چھپے اور کھلے سب کا جاننے والا ہے. اس میں ایک جانب اہل ایمان‘ اصحابِ برّ و تقویٰ اور طاعت و انفاق پر کاربند رہنے والوں کے لیے بشارت اور یقین دہانی مضمر ہے کہ وہ مطمئن رہیں کہ ان کی کوئی نیکی ضائع جانے والی نہیں ہے اور دوسری طرف اعراض و انکار کی روش اختیار کرنے والوں کے لیے تہدیدوتنبیہ بھی ہے کہ تمہاری کوئی حرکت اللہ سے پوشیدہ نہیں ہے اور وہ تمہیں کیفرِکردار تک پہنچانے کے لیے کامل غلبہ واقتدار کا مالک ہے! اس لیے کہ وہ ’’العزیز‘‘ہے . اور اگروہ تمہاری گرفت فوری طور پر نہیں کر رہا بلکہ تمہیں مہلت اور ڈھیل دیے جارہا ہے تو یہ اس کی حکمتِ کاملہ کا مظہر ہے‘ اس لیے کہ جہاں وہ ’’العزیز‘‘ ہے وہاں ’’الحکیم‘‘ بھی ہے. 

وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمینoo