ٔاس سے قبل کہ ہم اس سورہ مبارکہ کے مضامین اور مطالب پر غور کریں‘ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ایمان بالآخرت کی اہمیت کے بارے میں چند تمہیدی باتیں نوٹ کر لی جائیں.
قیامت اور آخرت پر ایمان کی اہمیت کا اندازہ قرآن مجید کے ہر پڑھنے والے کو بآسانی ہو جاتا ہے جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ قرآن حکیم کا شاید ہی کوئی صفحہ ایسا ہو جس میں آخرت کا ذکر خفی یا جلی انداز میں موجود نہ ہو. چنانچہ مصحف کے ہر صفحے پر کسی نہ کسی اسلوب سے بعث بعد الموت‘ حشر و نشر‘ حساب کتاب‘ جزا و سزا اور جنت و دوزخ میں سے کسی نہ کسی کا ذکر لازماً موجود ہے.
جن مقامات کا مطالعہ ہم اس سلسلۂ درس میں کر چکے ہیں اگر ہم ان کا سرسری جائزہ لیں تو بادنیٰ تأمل نظر آجائے گا کہ ان میں سے ہر ایک میں آخرت کا ذکر موجود ہے. ہمارا پہلا درس سورۃ العصر پر مشتمل تھا. اس میں ایک جامع اصطلاح کے طور پر ’’ایمان‘‘ کا ذکر آیا‘ لیکن اس کی کوئی تفصیل نہیں تھی. البتہ دوسرے ہی درس میں‘ جو سورۃ البقرۃ کی آیت ۱۷۷ پر مشتمل ہے اور جسے ہم نے ’’آیۂ بر‘‘ سے موسوم کیا تھا‘ ایمانیات کی تفصیل کے ضمن میں ایمان باللہ کے فوراً بعد یوم الآخر پر ایمان کا ذکر ہے: وَ لٰکِنَّ الۡبِرَّ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ’’بلکہ حقیقی نیکی تو اس کی ہے جو ایمان لایا اللہ پر اور یومِ آخر پر‘‘.
ہمارا تیسرا درس سورۂ لقمان کے دوسرے رکوع پر مشتمل تھا. اس میں ایک تو قانونِ مجازات و مکافاتِ عمل کا ذکر ہے جو بڑے جامع الفاظ میں حضرت لقمان کی وصیت میں آیا ہے:
یٰبُنَیَّ اِنَّہَاۤ اِنۡ تَکُ مِثۡقَالَ حَبَّۃٍ مِّنۡ خَرۡدَلٍ فَتَکُنۡ فِیۡ صَخۡرَۃٍ اَوۡ فِی السَّمٰوٰتِ اَوۡ فِی الۡاَرۡضِ یَاۡتِ بِہَا اللّٰہُ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَطِیۡفٌ خَبِیۡرٌ ﴿۱۶﴾
’’اے میرے پیارے بچے! (اس حقیقت کو ذہن نشین کر لے کہ) انسان کے عمل کو ( نیکی ہو یا بدی) خواہ وہ رائی کے دانے کے ہم وزن ہو‘ پھر خواہ وہ کسی غار یا چٹان کے اندر (چھپ کر) کیا جائے‘ خواہ وہ آسمانوں (فضاؤں اور خلاؤں) میں جا کر یا زمین (کی گہرائیوں) میں اُتر کر کیا جائے‘ اللہ اس کو (جزا و سزا کے دن) لے آئے گا. بے شک اللہ بہت باریک بین ہے‘ با خبر ہے‘‘.
اس کے علاوہ اس رکوع میں ایک جگہ یہ الفاظ آئے : اِلَیَّ الۡمَصِیۡرُ ﴿۱۴﴾ ’’میری ہی طرف لوٹنا ہے‘‘.
اگلی آیت کے آخر میں الفاظ آئے:
ثُمَّ اِلَیَّ مَرۡجِعُکُمۡ فَاُنَبِّئُکُمۡ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۵﴾
’’پھر میری ہی طرف تم سب کو آنا ہے‘ پھر میں تم سب کو جتلا دوں گا جو کچھ تم کرتے رہے تھے‘‘.
ہمارا چوتھا سبق سورۂ حٰمٓ السجدۃ کی آیات ۳۰ تا ۳۶ پر مشتمل تھا‘ جس میں اہلِ ایمان کے لیے ان کی استقامت کا انعام جنت کی شکل میں دینے کا وعدہ فرمایا گیا اور اس ضمن میں ارشاد ہوا:
وَ لَکُمۡ فِیۡہَا مَا تَشۡتَہِیۡۤ اَنۡفُسُکُمۡ وَ لَکُمۡ فِیۡہَا مَا تَدَّعُوۡنَ ﴿ؕ۳۱﴾
’’اوراس میں تمہارے لیے وہ سب کچھ ہے جسے تمہارا جی چاہے اور تمہارے لیے وہ سب کچھ بھی ہوگا جسے تم طلب کرو گے‘‘.
پانچواں درس اساس القرآن سورۃ الفاتحہ پر مشتمل تھا‘ اس میں ایک عظیم آیت مبارکہ اسی حقیقت ِ کبریٰ کے اظہار کے لیے وارد ہوئی‘ یعنی: مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۳﴾ ’’جزا و سزا کے دن کا مالک‘‘.
چھٹا سبق سورۂ آل عمران کی آیات ۱۹۰ تا ۱۹۵ پر مشتمل تھا‘ اس میں آپ نے دیکھا کہ کس شدّ و مدّ کے ساتھ آخرت کا ذکر آیا:
رَبَّنَا مَا خَلَقۡتَ ہٰذَا بَاطِلًا ۚ سُبۡحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ﴿۱۹۱﴾رَبَّنَاۤ اِنَّکَ مَنۡ تُدۡخِلِ النَّارَ فَقَدۡ اَخۡزَیۡتَہٗ ؕ وَ مَا لِلظّٰلِمِیۡنَ مِنۡ اَنۡصَارٍ ﴿۱۹۲﴾
’’اے ہمارے ربّ! تُو نے یہ (سلسلۂ کون و مکاں) فضول اور بے کار پیدا نہیں کیا ہے‘ تُو پاک ہے( منزہ ہے اس سے کہ کوئی بے مقصد اور عبث کام کرے)‘ پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے. اے ہمارے آقا!یقینا جس کوتو نے دوزخ میں ڈال دیا اسے تو بالکل ذلیل اور رسوا کر دیا.اور ایسے ظالموں کے لیے کوئی مددگار نہیں ہوگا‘‘.
ذرا آگے چل کر الفاظ آئے: وَ لَا تُخۡزِنَا یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ (آیت ۱۹۴) ’’اور (اے ہمارے ربّ!) ہمیں قیامت کے دن رسوا نہ کیجیو‘‘. پھر مزید آگے چل کر اللہ تعالیٰ نے اپنے فرماں بردار بندوں کو اِن الفاظ میں اطمینان دلایا:
لَاُکَفِّرَنَّ عَنۡہُمۡ سَیِّاٰتِہِمۡ وَ لَاُدۡخِلَنَّہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ۚ
(آیت ۱۹۵) ’’میں لازماً ان کی برائیاں ان سے دور کر دوں گا اور ان کو لازماً اُن باغات میں داخل کروں گاجن کے دامن میں ندیاں بہتی ہیں‘‘.
اس سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ قیامت کے وقوع اور اُخروی جزا و سزا کے یقینی ہونے پر کتنا زور ہے.
اس کے بعد درس ہفتم یعنی سورۃالنور کے پانچویں رکوع میں قیامت کے دن کی ہولناکی کا نقشہ ان الفاظ میں سامنے آیا:
یَخَافُوۡنَ یَوۡمًا تَتَقَلَّبُ فِیۡہِ الۡقُلُوۡبُ وَ الۡاَبۡصَارُ ﴿٭ۙ۳۷﴾ (النور) ’’(اللہ کے نیک اور محبوب بندے) لرزاں و ترساں رہتے ہیں اس دن کے خیال سے جس دن دل اور آنکھیں اُلٹ جائیں گے‘‘.
درس ہشتم یعنی سورۃ التغابن میں تو بلاشک و شبہ یہ مضمون اپنے نقطۂ عروج کوپہنچ گیا‘ چنانچہ اس سورۂ مبارکہ کی تیسری آیت ان الفاظ پر ختم ہوتی ہے: وَ اِلَیۡہِ الۡمَصِیۡرُ ﴿۳﴾ ’’اور اسی (اللہ) کی طرف لوٹ جانا ہے‘‘. پھر ساتویں آیت میں پہلے تو منکرینِ قیامت کا یہ اعتراض یا مغالطہ نقل کیا گیا :
زَعَمَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنۡ لَّنۡ یُّبۡعَثُوۡا ؕ
’’ان منکرین کو یہ مغالطہ لاحق ہو گیا ہے کہ انہیں اٹھایا نہ جائے گا‘‘.
پھر نبی اکرمﷺ سے کہلوایا گیا:
قُلۡ بَلٰی وَ رَبِّیۡ لَتُبۡعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلۡتُمۡ ؕ
’’(اے نبیؐ !) کہہ دیجیے: کیوں نہیں! مجھے میرے پروردگار کی قسم ہے کہ تم لازماً اٹھائے جاؤ گے اور پھر تمہیں لازماً جتلا دیا جائے گا جو کچھ تم کرتے رہے تھے‘‘.
اور ذرا آگے چل کر فرمایا:
یَوۡمَ یَجۡمَعُکُمۡ لِیَوۡمِ الۡجَمۡعِ ذٰلِکَ یَوۡمُ التَّغَابُنِ ؕ (آیت ۹) ’’(جان لو کہ) وہ دن‘ جس دن وہ تمہیں جمع کرے گا جمع ہونے کے دن‘ وہ ہے اصل ہار جیت کے فیصلے کا دن!‘‘
یعنی اُس روز جو کامیاب قرار دیا گیا وہی اصلاً کامیاب و کامران ہوا. پھر اس کامیابی کی وضاحت ان الفاظ میں فرمائی گئی کہ:
..... یُّکَفِّرۡ عَنۡہُ سَیِّاٰتِہٖ وَ یُدۡخِلۡہُ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿۹﴾
’’… اللہ اس سے اس کے گناہ جھاڑ دے گا اور اس کو ایسے باغات میں داخل کرے گاجن کے دامن میں ندیاں بہتی ہوں گی‘ یہ لوگ ان میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے. یہی دراصل بڑی کامیابی ہے‘‘.
اس کے برعکس جو ناکام قرار پائے گا اور نامراد رہے گا اس کے انجامِ بد کا بیان اگلی آیت میں وارد ہوا :
وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ وَ بِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ ﴿٪۱۰﴾ ’’اور جن لوگوں نے کفر و انکار کا راستہ اختیار کیا اور ہماری آیات کو جھٹلاتے رہے وہی لوگ دوزخ والے ہوں گے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے. اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے‘‘.
اس سرسری سے جائزہ سے اندازہ ہو گیا کہ اب تک ہم نے قرآن حکیم کے جن معدودے چند مقامات کا مطالعہ کیا ہے ان میں بھی کس قدر شدّ و مدّ کے ساتھ بعث بعد الموت‘قیامِ قیامت اور آخرت کی کامیابی اور ناکامی کا ذکر آ چکا ہے.
یہاں ایک نکتہ اور بھی نوٹ کر لیا جائے کہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر یہ اہم تقابل سامنے آتا ہے کہ جہاں دوسرے ایمانیات کے لیے لفظ ایمان آیا ہے‘ وہاں آخرت کے لیے عموماً لفظ یقین استعمال ہوا ہے ‘ جیسے سورۃ البقرۃ کے آغاز میں وحی ٔ الٰہی اور کتب سماویہ پر ایمان کا ذکر تو ان الفاظ میں آیا کہ :
وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِکَ ۚ (آیت ۴)
’’اور وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں اس پر بھی جو (اے نبیؐ !) آپ پر نازل کیا گیا اور اس پر بھی جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا‘‘.
لیکن آخرت پر ایمان کا ذکر ہوا اِن الفاظ کے ذریعے کہ:
وَ بِالۡاٰخِرَۃِ ہُمۡ یُوۡقِنُوۡنَ ؕ﴿۴﴾
’’اور وہ آخرت پریقین رکھتے ہیں‘‘.
اس سے معلوم ہوا کہ ایمان بالآخرت میں وہ گہرائی اور شدت مطلوب ہے جسے ہم ’’یقین‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں.
یہ بات پہلے بھی عرض کی جا چکی ہے کہ اصولی‘ نظری اور علمی اعتبار سے ایمان اصل میں نام ہے ایمان باللہ کا. یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ’’ایمانِ مجمل‘‘ میں صرف ایمان باللہ کا ذکر ہے:
آمَنْتُ بِاللّٰہِ کَمَا ہُوَ بِاَسْمَائِہٖ وَصِفَاتِہٖ وَقَبِلْتُ جَمِیْعَ اَحْکَامِہٖ اِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَتَصْدِیْقٌ بِالْقَلْبِ
’’میں ایمان لایا اللہ پر جیسے کہ وہ اپنے اسماء اور صفات سے ظاہر ہے‘ اور میں نے قبول کیے اس کے جملہ احکام‘میں اقرار کرتا ہوں زبان سے اور تصدیق کرتا ہوں دل سے‘‘.
چنانچہ واقعہ یہ ہے کہ ایمان بالآخرت اور ایمان بالرسالت دونوں ایمان باللہ کی فروع ہیں. چنانچہ ایمان بالآخرت اللہ تعالیٰ کی صفت عدل کا مظہر ہے اور ایمان بالرسالت اللہ تعالیٰ کی صفت ہدایت کا تکمیلی ظہور ہے‘ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ اگر عملی اور اخلاقی اعتبار سے غور کیا جائے تو سب سے مؤثر ایمان ‘ ایمان بالآخرت ہے. اس لیے کہ اگر آخرت کا یقین ہوگا‘ مرنے کے بعد محاسبہ کے لیے جی اٹھنے کا یقین ہوگا ‘ جزا و سزا کا یقین ہوگا‘ جنت و دوزخ کا یقین ہوگا تو انسان کے رویے میں عملی تبدیلی لازماً آئے گی‘ اور اگر ایمان بالآخرت میں کمی رہ گئی تو ایمان باللہ بھی ذات و صفاتِ باری تعالیٰ کی ایک علمی بحث بن کر رہ جائے گا اور ایمان بالرسالت بھی عشقِ رسولﷺ کے محض زبانی دعوؤں کی صورت اختیار کر لے گا اور رسول اللہﷺ کی اطاعت اور اتباع کی نوبت نہیں آئے گی.
اس مقام پر ضمناً یہ بھی جان لیجیے کہ قانونی‘ فقہی اور شرعی اعتبار سے اہم ترین ایمان‘ ایمان بالرسالت ہے. چنانچہ ایمان باللہ اسی وقت معتبر ہوگا جبکہ اللہ تعالیٰ کو اُن اسماء و صفات کے ساتھ مانا جائے جن کی خبر حضرت محمدﷺ نے دی ہے ‘اور ایمان بالآخرت بھی تب ہی معتبر ہوگا جب بعث بعد الموت‘ حشر و نشر‘ حساب کتاب‘ وزنِ اعمال ‘ جزا و سزا اور جنت و دوزخ کی ان تفاصیل کو مانا جائے جن کی خبر حضرت محمدٌ رسول اللہﷺ نے دی ہے.
اس بات پر زور دینے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوتی ہے کہ بدقسمتی سے کچھ عرصہ سے ہمارے یہاں خود کو مسلمان کہلانے والا عقلیت زدہ لوگوں کاایک مختصر سا گروہ یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ آخرت حقیقی اور واقعی نہیں ہے بلکہ محض ایک نظریہ اور تصور ہے جس سے اصل مقصود دنیا میں عدل و انصاف کا قیام ہے‘ چنانچہ جنت و دوزخ اور جزا و سزا کا جو تصور قرآن مجید دیتا ہے اس سے مقصود صرف یہ ہے کہ اس دنیا میں انسان کی معاشرتی‘ سماجی‘ سیاسی‘ معاشی الغرض پوری اجتماعی زندگی عدل و قسط پر قائم ہو جائے اور انسان دنیا میں امن و سکون کے ساتھ بہتر سے بہتر طریق پر زندگی بسر کر سکے. یہ خیال اپنی اصل کے اعتبار سے خالص گمراہی اور زندقہ ہے. آخرت ہرگز صرف تصور اور محض نظریہ نہیں ہے‘ بلکہ ایک واقعہ ہے جو لازماً ظہور پذیر ہوگا. چنانچہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر مختلف اسالیب سے اس بات پر زور دیا گیا ہے‘ جیسے سورۃ الذّٰریٰت میں فرمایا: اِنَّمَا تُوۡعَدُوۡنَ لَصَادِقٌ ۙ﴿۵﴾وَّ اِنَّ الدِّیۡنَ لَوَاقِعٌ ؕ﴿۶﴾ ’’جس (قیامت و آخرت) کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے وہ بالکل برحق ہے (سچ ہے) اور جزا و سزا لازماً واقع ہو کر رہے گی‘‘. یا جیسے سورۃ المرسلات میں فرمایا: اِنَّمَا تُوۡعَدُوۡنَ لَوَاقِعٌ ؕ﴿۷﴾ ’’جس چیز کی دھمکی تمہیں دی جا رہی ہے وہ لازماً واقع ہو کر رہے گی‘‘. (یعنی نری دھمکی اور خالی دھونس نہیں ہے!)
جو لوگ آخرت کو محض ایک تصور اور نظریہ قرار دے کر یہ امید بھی کرتے ہیں کہ اس سے اس دُنیا میں عدل و قسط پر مبنی ایک اجتماعی نظام وجود میں آ سکتا ہے وہ ایک شدید مغالطے میں مبتلا ہیں. اس لیے کہ محض تصورو نظریہ سے یہ مقصد ہر گز حاصل نہیں ہو سکتا. انسان کی سیرت‘ اس کے کردار‘ اخلاق اور اعمال و معاملات پر واقعی اور عملی اثر محض آخرت کے تصور یا نظریہ کا نہیں بلکہ صرف یقین کے درجے تک پہنچے ہوئے ایمان ہی کا پڑ سکتا ہے. چنانچہ اگر ایک معاشرے میں آخرت پر قلبی یقین رکھنے والے لوگ معتدبہ تعداد میں موجود ہوں گے تو اس کی برکت سے اور اس کے نتیجے میں اس دنیا میں مبنی بر عدل و قسط اجتماعی نظام بھی لازماً وجود میں آئے گا‘ لیکن ایمان بالآخرت کا اصل مقصود صرف ہماری دُنیوی بہبود نہیں ہے بلکہ اس کا اصل مطلوب محاسبۂ اُخروی میں سرخرو اور کامیاب و کامران ہونا ہے‘ اور یہ نصب العین ہماری دُنیوی فلاح وبہبود اور امن و سلامتی سے اس طرح مربوط و متعلق ہے کہ آخرت کی وہ تفاصیل جو قرآن اور حدیث ِ رسولؐ میں بیان ہوئی ہیں اُن پر قلبی یقین اور اس کے مطابق اس دنیا میں اپنے رویے اور عمل کی اصلاح و تعمیر کے بغیر نہ دنیا میں نظامِ عدل و قسط قائم ہو سکتا ہے اور نہ اُخروی نجات حاصل ہو سکتی ہے. الغرض یومِ قیامت ایک اٹل اور شدنی امر ہے اور آخرت ایک حقیقت ِ کبریٰ ہے اور اس کا حتمی اور یقینی علم اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں اور اپنی کتابوں کے ذریعے سے ہمیں پیشگی عطا فرما دیا ہے‘ تا کہ ہمارے تمام اعمال کا اصل محرک اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول اور اُخروی نجات بن جائے‘ جس کے لیے قرآن حکیم دو ٹوک انداز میں ہمیں آگاہ اور متنبہ کرتا ہے:
فَاِذَا جَآءَتِ الطَّآمَّۃُ الۡکُبۡرٰی ﴿۫ۖ۳۴﴾یَوۡمَ یَتَذَکَّرُ الۡاِنۡسَانُ مَا سَعٰی ﴿ۙ۳۵﴾وَ بُرِّزَتِ الۡجَحِیۡمُ لِمَنۡ یَّرٰی ﴿۳۶﴾فَاَمَّا مَنۡ طَغٰی ﴿ۙ۳۷﴾وَ اٰثَرَ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا ﴿ۙ۳۸﴾فَاِنَّ الۡجَحِیۡمَ ہِیَ الۡمَاۡوٰی ﴿ؕ۳۹﴾وَ اَمَّا مَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَ نَہَی النَّفۡسَ عَنِ الۡہَوٰی ﴿ۙ۴۰﴾فَاِنَّ الۡجَنَّۃَ ہِیَ الۡمَاۡوٰی ﴿ؕ۴۱﴾ (النّٰزعٰت)
’’پس جب قیامت کا ہنگامۂ عظیم برپا ہوگا ‘ جو کچھ انسان نے دنیا میں کیا ہے اس دن وہ اس کو یاد کرے گا‘ اور دوزخ ہر دیکھنے والے کے سامنے بے نقاب کر دی جائے گی‘ تو جس نے (دنیا میں) سرکشی کی تھی اور دنیا کی زندگی کو آخرت پر مقدم رکھا تھا‘ تو یقینااس کا ٹھکانہ تو بس دوزخ ہی ہے‘ اور جو اپنے ربّ کے حضورکھڑا ہونے سے(یعنی محاسبہ کے لیے پیشی سے) ڈرا تھا اور اپنے نفس کو بُری خواہشات سے روکتا رہا تھا تو لاریب اس کا ٹھکانہ جنت ہے‘‘.