رہے وہ لوگ جو قرآن مجید کو اللہ کا کلام نہیں مانتے‘ تو وہ بھی اس قسم کو لامحالہ منسوب کریں گے جناب محمدٌ رسول اللہ ﷺ کی طرف. اور اس صورت میں بھی اس قسم کی تأثیر ختم نہیں ہو گی بلکہ باقی رہے گی‘ اس لیے کہ رسول اللہﷺ کی شخصیت ِ مبارکہ اور سیرتِ مطہرہ کا وزن اس کی پشت پر پھر بھی موجود رہے گا کہ یہ قسم وہ کھا رہا ہے جس کی صداقت و امانت کی گواہی اس کے دشمنوں تک نے دی ہے. یہ مضمون اس سے قبل سورۃ التغابن کی آیت ۷ کے الفاظِ مبارکہ قُلۡ بَلٰی وَ رَبِّیۡ لَتُبۡعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلۡتُمۡ ؕ ’’(اے نبیؐ !) کہہ دیجیے : کیوں نہیں! اور مجھے میرے ربّ کی قسم ہے کہ تم لازماً دوبارہ اٹھائے جاؤ گے‘ پھر تم لازماً جتلا دیے جاؤ گے جو کچھ تم (دنیا میں) کرتے رہے ہو‘‘ کی تشریح و توضیح کے ضمن میں بیان ہو چکا ہے. چنانچہ سیرتِ مطہرہ کا اہم واقعہ ہے کہ جب نبی اکرمﷺ کے بارے میں اسلام کے سب سے بڑے دشمن ابوجہل سے یہ پوچھا گیا کہ ’’کیا تمہارا گمان یہ ہے کہ محمدؐ ‘ جھوٹ بولتے ہیں؟‘‘ تو اس نے کہا: ’’ہرگز نہیں! انہوں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا‘‘. پھر جب پوچھنے والے نے پوچھا کہ ’’پھر تم ان کی تصدیق کیوں نہیں کرتے اور ان پر ایمان کیوں نہیں لاتے؟‘‘ تو اس نے بڑی صفائی کے ساتھ اقرار کیا کہ: ’’اصل معاملہ یہ ہے کہ ہمارے اور بنوہاشم کے مابین ایک مسابقت اور مقابلہ جاری ہے. انہوں نے لوگوں کو کھانے کھلائے تو ہم نے ان سے بڑھ کر کھلائے‘ انہوں نے مہمان نوازیاں کیں تو ہم نے ان سے بڑھ کر کیں‘ ہم اب تک کاندھے سے کاندھا ملائے چلے آ رہے ہیں. اب اگر ہم ان کے ایک فرد کی نبوت کو تسلیم کر لیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم ہمیشہ کے لیے ان کے تابع ہو جائیں گے اور یہ بات مجھے کسی طور پر بھی گوارا نہیں‘‘.معلوم ہوا کہ ابوجہل جیسا دشمنِ خدا و رسول بھی حضرت محمدٌ رسول اللہﷺ پر جھوٹ کا الزام نہیں لگا سکا. یہی وجہ ہے کہ جب رسول کریم ﷺ کو حکم ہوا : فَاصۡدَعۡ بِمَا تُؤۡمَرُ (الحِجْر:۹۴) ’’پس اب (اے نبیؐ!) آپ برملا اور ڈنکے کی چوٹ کہیے وہ بات جس کا آپؐ ‘کو حکم ملا ہے‘‘.اور آپؐ پہلے ’’خطابِ عام‘‘ کے لیے کوہِ صفا پر کھڑے ہوئے تو چونکہ اُس زمانے میں رواج تھا کہ اگر کوئی اہم خبر لوگوں کو پہنچانی مقصود ہوتی تھی تو خبر پہنچانے والا کسی بلند مقام پر بے لباس ہو کر کھڑا ہوجاتا تھا اور نعرہ لگاتا تھا’’وَاصَبَاحَاہ‘‘ (ہائے وہ صبح جو آنے والی ہے!)چنانچہ لوگ اس کی آواز سن کر اور جن تک آواز نہیں پہنچتی تھی وہ دور سے یہ دیکھ کر کہ ایک ’’ڈرانے والا‘‘ پہاڑی پر کھڑا ہے‘ اس کے گرد جمع ہو جاتے تھے. لہذا رسول اللہﷺ نے اس رواج میں یہ ترمیم فرماتے ہوئے کہ کپڑے نہیں اتارے‘ اس لیے کہ یہ بات کسی طرح بھی آپؐ کے شایانِ شان نہ تھی اور آپؐ ‘تو حیا کا پیکر اعظم تھے‘ باقی سارا معاملہ معمول کے مطابق کیا اور کوہِ صفا پر کھڑے ہو کر بآواز بلند فرمایا: ’’وَاصَبَاحَاہ‘‘. اور جب آپؐ ‘کی یہ ندا سن کر اور آپؐ ‘کو کوہِ صفا پر کھڑا دیکھ کر لوگ آپؐ کے گرد جمع ہو گئے تو آپؐ نے دعوت پیش کرنے سے پہلے لوگوں سے سوال کیا: ’’لوگو! تم نے مجھے کیسا پایا؟‘‘ مجمع نے بیک زبان تسلیم کیا کہ آپؐ سچے بھی ہیں اور امانت دار بھی! لہذا جو لوگ قرآن مجید کو منزّل من اللہ نہیں مانتے اور اُن کے نزدیک اس کلام کے متکلم خود محمد (ﷺ ) ہیں‘ ان کے لیے رسول اللہﷺ کی شخصیت کا پورا وزن اور پورا زور اس قَسم کی پشت پر موجود ہے کہ لَاۤ اُقۡسِمُ بِیَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ ۙ﴿۱﴾ ’’ نہیں!مجھے قسم ہے قیامت کے دن کی‘‘. یعنی میں قیامت کے وقوع کو اتنا یقینی‘ قطعی اور حتمی مانتا ہوں کہ اس کے یقینی اور شدنی ہونے پر خود اسی کی قسم کھاتا ہوں!
جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے‘ سورۃالتغابن کی آیت ۷ میں نبی اکرمﷺ سے جو قَسم کہلوائی گئی تھی اس کا بھی یہی مفاد اور انداز تھا. اصطلاح میں اس کو ’’دلیل خطابی‘‘ کہا جاتا ہے جس میں دلیل کی حیثیت متکلم کے اپنے یقین واثق اور اس کی اپنی بے داغ شخصیت اور اعلیٰ سیرت کو حاصل ہوتی ہے اور جس کے ذریعے متکلم کا یقین اور اذعان مخاطبین میں منتقل ہوتا اور سرایت کرتا ہے.