اب آیئے دوسری دلیل کی طرف. ارشاد فرمایا گیا : وَ لَاۤ اُقۡسِمُ بِالنَّفۡسِ اللَّوَّامَۃِ ؕ﴿۲﴾ ’’اور نہیں! میں قسم کھاتا ہوں نفسِ ملامت گر کی‘‘. اس بات کو ایک آفاقی و عالمی حقیقت کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے کہ انسان کے باطن میں ایک حقیقت پوشیدہ ہے جسے ضمیر سے تعبیر کیا جاتا ہے. چنانچہ انسان جب کوئی برا کام کرتا ہے تو اسے اندر سے ضمیر کی خلش کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ تم نے یہ اچھا نہیں کیا. اس لیے کہ بُرے سے بُرا انسان بھی یہ جانتا ہے کہ برائی برائی ہے اور بدی بدی ہے‘ اور اگرچہ مختلف اسباب اور محرکات کے تحت وہ کسی برائی کا ارتکاب کر رہا ہوتا ہے‘ لیکن عین اُس وقت بھی وہ یہ جانتا ہے کہ یہ کام برا ہے اور اسے یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ اس کا ضمیر اُسے اندر ہی اندر کچوکے دے رہا ہے.اسی احساس اور اسی کیفیت کو اِس آیت مبارکہ میں ’’نفسِ لوّ امہ‘‘ قرار دیا گیا ہے اور آیتِ مبارکہ میں اس کی قسم کھائی گئی ہے. اس لیے کہ نفسِ انسانی کی یہ مضمر حقیقت جو عالمی اور آفاقی سطح پر مسلّم سچائی کی حیثیت رکھتی ہے‘ وقوعِ قیامت پر سب سے زیادہ قوی اور سب سے زیادہ مؤثر دلیل ہے‘ جسے قرآن حکیم نے اسلوب اور الفاظ کے فرق اور تنوع کے ساتھ بہت سے مقامات پر‘ کہیں اجمال اور کہیں تفصیل کے ساتھ‘ بیان کیا ہے.

اس دلیل کا اگر کسی قدر تفصیلی تجزیہ کیا جائے تو بات کچھ یوں بنتی ہے کہ ہر انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے نیکی اور بدی کو پہچانتا ہے‘ ان میں تمیز کرتا اور اُن کے فرق و تفاوت کو خوب جانتا اور پہچانتا ہے. گویا یہ پہچان اور یہ شعور فطرتِ انسانی میں ودیعت شدہ ہے. چنانچہ آخری پارے کی سورۃ الشمس میں فرمایا گیا: وَ نَفۡسٍ وَّ مَا سَوّٰىہَا ۪ۙ﴿۷﴾فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا ۪ۙ﴿۸﴾ ’’اور گواہ ہے نفسِ انسانی اور جیسا کہ اسے بنایا اور سنوارا‘ پھر اس میں فجور و تقویٰ (برائی اور اچھائی اور بدی اور نیکی کا علم) الہامی طور پر ودیعت کر دیا‘‘. چنانچہ ہر شخص جانتا ہے کہ جھوٹ بولنا برائی ہے اور سچ بولنا اچھائی ہے‘ وعدہ خلافی برائی ہے اور ایفائے عہد بھلائی ہے‘ کسی کو دھوکہ دینا شر ہے اور کسی کی صحیح رہنمائی کرنا خیر ہے‘ ظلم وا ستحصال اور تعدّی و حق تلفی بدی کے کام ہیں‘ جبکہ عدل و انصاف‘ ہمدردی و خیر خواہی اور خدمتِ خلق نیکی کے کام ہیں. یہ سب عالمی اور آفاقی سچائیاں ہیں اور ان کے ضمن میں کہیں بھی انسانوں کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے.

یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ اس کے حقیقت ہونے پر سب سے بڑا گواہ ہمار اپنا ضمیر ‘ ہمارا اپنا نفس ملامت گر اور ہمارا اپنا ذاتی احساس ہے‘ کہ اگر کسی سبب سے ہم سے کوئی غلط حرکت سرزد ہو جاتی ہے یا کسی برے کام کا ارتکاب ہو جاتا ہے تو ہمارا پنا ضمیر ہمیں ملامت کرتا ہے کہ تم نے یہ بُرا کام کیا ہے. اس سلسلے میں اُن معدودے چند لوگوں کا معاملہ ذہن سے نکال دیجیے جن کی فطرت بالکل ہی مسخ ہو چکی ہو‘ جن کے دل پتھر بن گئے ہوں‘ جن کا ضمیر مردہ ہو چکا ہو‘ جو اتنے کٹھور دل ہو چکے ہوں کہ انسانیت کی کوئی رمق بھی ان میں باقی نہ رہی ہو اور جن کی خود غرضی اور مفاد پرستی جملہ اخلاقی اقدار پر مسلط ہو چکی ہو. ان لوگوں کی حیثیت ان استثناء ات کی ہے جو قواعد و کلیات کو مزید ثابت اور مؤکد کرتے ہیں. ورنہ قاعدہ کلیہ یہی ہے کہ فطرتِ انسانی نیکی اور بدی اور خیر وشر کے مابین واضح طور پر فرق اور تمیز کرتی ہے. فطرتِ انسانی کی اس بدیہی حقیقت پر اگر عقلِ سلیم کے اس مسلّمہ اصول کا اطلاق کیا جائے کہ ؏ ’’گندم از گندم بروید‘ جو ز جو!‘‘تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان کو نیک اعمال کا اچھا صلہ ملنا چاہیے اور بد اعمالیوں کی سزا ملنی چاہیے‘ جبکہ فی الواقع جو صورت ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ اس دنیا کی زندگی میں نیکی کا بدلہ بھلائی کی صورت میں اکثر و بیشتر تو بالکل ملتا ہی نہیں ‘اور اگر ملے بھی تو نیکی کی مناسبت سے نہیں ملتا. اسی طرح بدی کی سزا اکثر و بیشتر ملتی ہی نہیں‘ اور اگر ملتی بھی ہے تو جرم کے تناسب کے ساتھ نہیں ملتی. مثلاً ہٹلر کا نام ذہن میں لایئے جس کی ہوسِ اقتدار اور جوع الارض کی وجہ سے لاکھوں انسان مارے گئے‘ لاکھوں خواتین بیوہ ہوئیں‘ کروڑوں بچے یتیم ہو گئے‘ ہزاروں افراد اپاہج ہو گئے‘ لاکھوں گھر تباہ و برباد ہو گئے اور اُن کے مکین بے خانماں ہو گئے. نوعِ انسانی کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے کہ کتنا بڑا اور ہولناک جانی و مالی نقصان نوعِ بشر کو مجموعی طو رپر ہٹلر کی ہوسِ ملک گیری اور نسلی برتری کے زعمِ باطل کے باعث پہنچا! اب اگر ہٹلر گرفتار ہوجاتا اور اس کے جسم کا ایک ایک ریزہ بھی کر دیا جاتا تو کیا اسے اپنے جرائم کی پوری سزا مل جاتی؟ ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے ایک گولی سے خود اپنی زندگی ختم کر لی اور وہ اپنے جرائم کی دُنیوی سزا سے بالکل بچ گیا.

معلوم ہوا کہ اس اعتبار سے یہ دنیا ناقص ہے. یہاں قوانینِ طبیعیہ تو پورے طور پر بروئے کار آرہے ہیں. آپ اگر آگ میں انگلی ڈالتے ہیں تو وہ جل جاتی ہے‘ آپ کوئی سمِ قاتل اور زہرِ ہلاہل کھائیں گے تو مر جائیں گے‘ لیکن لوگ جھوٹ بولتے ہیں تو کوئی گزند نہیں پہنچتا‘ زبان پر چھالا تک نہیں پڑتا‘ لوگ حرام خوریاں کرتے ہیں تو سب رچ پچ جاتا ہے‘ کسی نوع کے دردِ شکم تک سے سابقہ پیش نہیں آتا‘ لوگ حق تلفیاں کرتے ہیں‘ رشوتیں لیتے ہیں‘ جبر و استحصال اور ناجائز ذرائع سے دولت جمع کرتے ہیں تو اس طرح جو جتنا مال دار اور دولت مند ہوتا ہے معاشرے میں اس کی اسی اعتبار سے عزت بڑھتی چلی جاتی ہے‘ حالانکہ اکثر لوگ جانتے ہیں کہ اس کی دولت مندی اور مال داری کی حقیقت کیا ہے اور کن ناجائز ذرائع سے اس نے دولت حاصل کی ہے. الغرض ایسے لوگ دنیا میں گل چھرے اڑاتے ہیں‘ عیش کرتے ہیں‘ آسودہ حال رہتے ہیں‘ صاحبِ عزت و شرف سمجھے جاتے ہیں‘ جن کے کوئی اصول نہیں ہیں‘ جو جائز و ناجائز‘ حرام و حلال اور خیر و شر کی تمیز اور اس بات کا رتی بھر لحاظ رکھے بغیر کہ ان کے اس طرزِ عمل سے قومی و ملی مفادات اور ملکی معیشت کو کتنا مہلک نقصان پہنچ رہا ہے‘ ہر نوع کی جعل سازی سے دن رات دولت سمیٹنے میں لگے رہتے ہیں. اس کے برعکس ایسے لوگوں کے لیے زندگی کی ناگزیر ضروریات فراہم کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے جو جائز اور ناجائز میں امتیاز کریں‘ حلال اور حرام میں فرق کریں‘ صحیح اور غلط کا لحاظ رکھیں اور اخلاق کی اعلیٰ اقدار کا پاس کریں.

اب یا تو یہ مانا جائے کہ یہ دُنیا نری اندھیر نگری اور چوپٹ راج ہے اور یہ تخلیق عبث اور بے مقصد ہے‘ ورنہ ایک دوسری زندگی کو ماننا لازم ٹھہرے گا‘ جس میں جزا و سزا کا قانون بھرپور طور پر بروئے کار آئے. یاد ہو گا کہ بالکل یہی بات سورۂ آل عمران کے آخری رکوع کے مطالعہ کے دوران سامنے آچکی ہے کہ : 
رَبَّنَا مَا خَلَقۡتَ ہٰذَا بَاطِلًا ۚ سُبۡحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ﴿۱۹۱﴾ ’’اے ہمارے ربّ!تو نے یہ سب کچھ بے مقصد( بے کار اور عبث) پیدا نہیں کیا. تو اس سے پاک ہے (تو اس سے اعلیٰ و ارفع اور منزہ و مبرا ہے کہ کوئی کام بے کار و بے مقصد کرے! تیری تخلیق کا یہ محکم نظام اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ نیکی کی جزا اور بدی کی سزا ملے گی.) پس (اے ہمارے ربّ!) ہمیں آگ کے عذاب سے بچائیو!‘‘ لہذا عقل و منطق کی رو سے بدیہی طور پر لازم آتا ہے کہ اگر خیر خیر ہے اور شر شر ہے‘ نیکی نیکی ہے اور بدی بدی ہے تو ایک دوسری زندگی لازماً ہونی چاہیے جس میں ان اعمال کے پورے نتائج ظاہر ہوں‘ نیکی کا بھرپور صلہ اور پورا پورا بدلہ ملے اور بدی کی بھرپور سزا ملے. الغرض یہ ہے قرآن حکیم کا بدیہیاتِ فطرت پر مبنی استدلال جو وہ ؏ ’’اک پھول کا مضموں ہو تو سورنگ سے باندھوں‘‘ کے مصداق مختلف اسالیب سے متعدد مقامات پر‘ کہیں تفصیل کے ساتھ اور کہیں اجمال کے ساتھ ‘پیش کرتا ہے. مثلاً سورۃ القلم میں ارشاد فرمایا گیا: اَفَنَجۡعَلُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ کَالۡمُجۡرِمِیۡنَ ﴿ؕ۳۵﴾مَا لَکُمۡ ٝ کَیۡفَ تَحۡکُمُوۡنَ ﴿ۚ۳۶﴾ یعنی سوچو تو سہی‘کیا ہم اپنے فرماں برداروں اور مجرموں کو برابر کر دیں گے؟کیا تم لوگوں کی مت ماری گئی ہے کہ ایسا حکم لگاتے ہو؟ اگر واقعتاکوئی اور زندگی نہیں ہے اور نہ کوئی آخرت ہے نہ محاسبہ‘ نہ جزا و سزا تو مجرم اور باغی تو مزے میں رہے کہ انہوں نے دنیا میں اس پر عمل کیا کہ ؏ ’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘. گویا عقلی اور منطقی طور پر ان لوگوں کی روش زیادہ درست اور مناسب ہے جنہوں نے خیر و شر کے مابین کوئی امتیاز نہیں کیا‘ جنہوں نے جائز و ناجائز اور حلال و حرام کے درمیان کوئی تمیز نہیں کی. لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو پھر خو د ہماری عقل تقاضا کرتی ہے کہ دوسری زندگی ہونی چاہیے جس میں انسان کو اپنے اعمال کی بھرپور جزا یا پوری پوری سزا مل جائے.

بہرحال یہ ہے خلاصہ اس پورے استدلال کا جس کو یہاں پر صرف ایک قسم کے اسلوب سے پیش کیا گیا ہے : 
وَ لَاۤ اُقۡسِمُ بِالنَّفۡسِ اللَّوَّامَۃِ ؕ﴿۲﴾ ’’اور نہیں! میں قسم کھاتا ہوں نفسِ ملامت گر کی‘‘. یہاں ذرا وہ بات بھی ذہن نشین کر لیجیے جو سورۃ العصر کے سبق کے ضمن میں عرض کی گئی تھی کہ قسم کا اصل مقصد گواہی اور شہادت ہے. گویا وقوعِ قیامت پر ایک تو خود یومِ قیامت گواہ ہے‘ گویا ’’آفتاب آمد دلیل آفتاب‘‘ اور اگر وقوعِ قیامت پر کوئی اضافی گواہی مطلوب ہی ہے تو تمہارا اپنا ضمیر‘ تمہارا اپنا نفسِ ملامت گر گواہی دے رہا ہے کہ نیکی نیکی ہے‘ بدی بدی ہے‘ لہذا اس کا بھرپور بدلہ جزا یا سزا کی صورت میں ملنا چاہیے جو اِس دنیا میں نہیں ملتا‘ چنانچہ اس کے لیے ایک دوسرا عالم ہونا عین عقل کا تقاضا ہے.
مناسب ہو گا کہ اس مقام پر اُس شخص کا حوالہ بھی دے دیا جائے جسے جدید مغربی فلسفے کا باوا آدم قرار دیا جاتا ہے‘ یعنی کانٹ‘ جس نے اپنے فلسفہ میں اخلاقی قانون کو بڑی اہمیت دی ہے. چنانچہ اس نے اپنی پہلی کتاب ’’تنقیدِ عقلِ خالص‘‘ 
(Critique of Pure Reason) میں تو یہ ثابت کیا تھا کہ وجودِ باری تعالیٰ کو کسی منطقی دلیل سے ثابت نہیں کیا جا سکتا. لیکن پھر اپنی دوسری کتاب ’’تنقیدِ حکمتِ عملی‘‘ (Critique of Practical Reason) میں یہ بات ثابت کی کہ وجودِ باری تعالیٰ کے اثبات پر سب سے بڑی دلیل انسان کے اندر کا اخلاقی قانون ہے جو اُس کے باطن اور اس کی فطرت میں ودیعت شدہ موجود ہے.یہ خیر و شر اور نیکی و بدی کی تمیز کہاں سے آئی؟ خالص مادّے میں یہ شعور کیسے پیدا ہو گیا؟ انسان کے سوا حیوانات میں یہ شعور موجود نہیں ہے. حیوانات صرف جبلت کے تحت زندگی بسر کرتے ہیں. یہ انسان کی شان ہے کہ وہ اخلاقی شعور رکھتا ہے اور خیر کی قدر و قیمت کو جانتا ہے اور بدی اور شر سے طبعاً نفرت کرتا ہے. چنانچہ وہ کہتا ہے کہ خدا کی ہستی پر دو دلیلیں سب سے زیادہ قوی ہیں. ایک تو ہمارے اوپر یہ ستاروں بھرا آسمان خدا کی ایک عظیم نشانی ہے اور دوسری نشانی وہ اخلاقی قانون وشعور ہے جو فطرتِ انسانی میں مضمر اور ودیعت شدہ ہے. واضح رہے کہ کانٹ نے اخلاقی قانون کو اللہ تعالیٰ کے وجود کے اثبات کے لیے بطورِ دلیل استعمال کیا ہے‘ جبکہ قرآن مجید اسے وقوعِ قیامت کی دلیل کے طور پر پیش کرتا ہے.