اس کا پہلا سبب یہ ہے کہ جب انسان فسق و فجور کا عادی ہو جاتا ہے اور اسے حرام خوری کی عادت پڑ جاتی ہے‘ وہ حرام کی کمائی سے حاصل ہونے والا عیش کا خوگر ہو جاتا ہے اور لذت کوشی اس کی گھٹی میں رچ بس جاتی ہے تو ان سب کا چھوڑنا آسان نہیں ہوتا. اب اگر وہ آخرت کو مانے تو اسے حلال و حرام میں تمیز کرنی پڑے گی اور جائز و ناجائز کے فرق کو ملحوظ رکھنا پڑے گا. چنانچہ جس طرح کبوتر جب بلی کو دیکھتا ہے تو اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے (حالانکہ اس طرح سے بلی معدوم نہیں ہو جاتی)‘ اسی طرح وہ لوگ جو فسق و فجور کے عادی ہو چکے ہیں اور اس کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں ‘ بلکہ اس کو جاری رکھنا چاہتے ہیں ‘ وہ آخرت ہی کا انکار کر دیتے ہیں. انہوں نے اپنے لیے اسی میں عافیت سمجھی ہے کہ روایتی کبوتر کی مانند قیامت و آخرت کی طرف سے اپنی آنکھیں بند کر لیں. گویا منکرین قیامت و آخرت کے انکار کا اصل سبب منطقی ہے نہ عقلی‘ بلکہ صرف یہ ہے کہ وہ اپنی حرام خوری اور فسق و فجور کی روش اور لااُبالیانہ طرزِ زندگی کو جاری رکھنا چاہتے ہیں. چنانچہ نہایت جامع الفاظ میں ارشاد فرمایا: بَلۡ یُرِیۡدُ الۡاِنۡسَانُ لِیَفۡجُرَ اَمَامَہٗ ۚ﴿۵﴾ یعنی ان کے اعراض و انکار کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی فسق و فجور کی روش کو جاری رکھنا چاہتے ہیں!